وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو متاثر کیے بغیر امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات پر زور دینے کے پیچیدہ چیلنج کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کا 4 روزہ دورہ 16 دسمبر کو مکمل کیا اور پھر ہفتے کے اختتام پر منظرعام سے غائب ہوگئے جس سے امریکا میں موجود پاکستانی کمیونٹی میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں، واشنگٹن اور نیویارک میں پاکستان کے سفارتی مشن نے اس بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔
3 روزہ قیام کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بلاول بھٹو کی ملاقات کے امکان کے حوالے سے محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’فی الوقت ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے‘۔تاہم وزیر خارجہ نے مختلف امریکی میڈیا کو اپنے انٹرویوز میں پاک-امریکا تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے بارے میں بات کی، نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) کی صحافی آمنہ نواز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ پاکستان اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ عین ممکن ہے کہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ پاکستان مصروف عمل رہے‘۔وزیر خارجہ نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کے بارے میں بھی بات کی لیکن ان خبروں کی تردید کی کہ پاکستان روس سے تیل خرید رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک روس کا تعلق ہے، ہم رعایتی قیمت پر توانائی لینے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمیں انتہائی مشکل معاشی صورت حال، افراط زر، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم توانائی کے عدم تحفظ کے پیش نظر اپنے علاقوں کو وسعت دینے کے لیے مختلف راستے تلاش کر رہے ہیں، جہاں سے ہم اپنی توانائی حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں روس سے جو بھی توانائی ملے گی، اس میں کافی وقت لگے گا۔
بلاول بھٹو کے ان ریمارکس پر وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک معترض نظر آئے جنہوں نے پہلے روس کے ساتھ تیل کے معاہدے پر بات چیت کا اعلان کیا تھا اور اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ پاکستان رعایتی نرخوں پر روسی تیل خرید رہا رہا ہے۔واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تیل کی خریداری کے معاہدے میں ابھی بہت وقت ہے تاہم دونوں ممالک اس حوالے سے سازگار صورتحال تلاش کر رہے ہیں۔
تاہم اس تنازع نے ان مشکلات کو عیاں کر دیا جن کا سامنا پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات تلاش کرتے ہوئے چین اور امریکا کے ساتھ شراکت داری برقرار رکھنے میں درپیش ہے۔بلاول بھٹو کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ قرار دیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے وزارئے خارجہ کے درمیان لفظی جنگ کا معاملہ بھی واشنگٹن مذاکرات میں نمایاں طور پر سامنے آسکتا ہے۔