صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ میں دوری کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کو کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا ناگزیر ہے اور یہ بھی کہ وہ اس مقصد کے لیے ’تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کی پیشکش‘ کرتے ہیں، لیکن تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے درمیان گذشتہ ایک مہینے کے دوران کسی قسم کی پیغام رسانی نہیں ہوئی جبکہ ان کی جانب سے مذاکرات کی ’درخواست کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نئے آرمی چیف کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام پر اس وقت اطمینان کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے اس بارے میں چیئرمین تحریک انصاف سے مشاورت کی تھی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجودہ فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان وہ کوئی ڈائیلاگ نہیں کروا رہے۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ یہ الیکشن کا سال ہے، الیکشن ہونے چاہئیں، سیاسی جماعتیں آپس میں طے کر لیں کہ الیکشن جلد یا بدیر ہوں گے، اگر چند مہینوں سے الیکشن کے آگے پیچھے ہونے کا فرق ہے تو وہ بھی بات چیت کے ذریعے طے کر لیں تاکہ معیشت اور لوگوں کے فلاح کے لیے کام ہو سکے۔
عارف علوی نے سابق آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان اختلافات سے متعلق بات کرتے ہوئے اس کی بڑی وجہ ’سوشل میڈیا‘ کو قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو غیرضروری اہمیت دینے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور یوں دونوں میں اختلافات کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سوشل میڈیا تھا، وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں فیصلہ ساز قوتیں سوشل میڈیا کو صحیح طریقے سے ’ہینڈل‘ نہیں کر پاتیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان تمام معاملات میں اختلافات کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رکھیں گے۔سابق آرمی چیف کو توسیع کی پیشکش پر انہوں نے کہا کہ میں ان باتوں سے واقف نہیں کہ کیا آفرز تھیں، مگر میں نے یہی کہا تھا کہ مل بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کی جائیں، کوئی بھی پارٹی ہو، اپوزیشن، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ میں کردار ادا کرنے کو تیار ہوں کہ لوگ قریب آئیں۔
نئے آرمی چیف کیلئے عمران خان سے مشاورت کے سوال پر عارف علوی نے کہا کہ آئین انہیں کسی سے بھی مشورہ کرنے کی اجازت دیتا ہے، آپ پچھلے کچھ عرصے کے سروے دیکھیں کہ کون پاکستان میں مقبول لیڈر ہے، تو کیا میں بڑی مقبول پارٹی سے مشورہ نہ کروں؟ کیا آئین مجھے اس بات سے روکتا ہے؟ میری مرضی ہے میں جس سے بھی مشورہ کروں، مشورے برطانیہ جا کر ہو رہے تھے سو یہ تو بہت جینیوئن مشاورت تھی۔عمران خان اور موجودہ حکومت پر کرپشن کے الزامات کے بارے میں صدر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے الزامات لگنے کی صورت میں غیر سیاسی، غیر جانبدار اور بااختیار ادارے کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہئیں۔