اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پاکستان تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے چند روز بعد ہی پی ٹی آئی کے مزید 35 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے۔
واضح رہے کہ 17 جنوری کو بھی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے، اس کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا استعفیٰ بھی منظور کرلیا تھا۔
اسپیکر کی جانب سے جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں ان میں 33 ارکان کے ساتھ ساتھ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین بھی شامل تھے۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب سے استعفے منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 35 اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔
17 جنوری کو جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے تھے ان میں مراد سعید، عمر ایوب خان، اسد قیصر، پرویز خٹک، عمران خٹک، شہریار آفریدی، علی امین خان، نور الحق قادری، راجا خرم شہزاد نواز، علی نواز اعوان، اسد عمر، صداقت علی خان، غلام سرور خان، شیخ راشد شفیق، شیخ رشید احمد، منصور حیات خان، فواد احمد، ثنااللہ خان مستی خیل، محمد حماد اظہر، شفقت محمود خان، ملک محمد عامر ڈوگر، شاہ محمود قریشی، زرتاج گل، فہیم خان، سیف الرحمٰن، عالمگیر خان، علی حیدر زیدی، آفتاب حسین صادق، عطااللہ، آفتاب جہانگیر، محمد اسلم خان، نجیب ہارون اور محمد قاسم خان سوری شامل ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب عالیہ حمزہ ملک اور کنول شوزب کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے۔
اسپیکر کی جانب سے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے ایک ایسے موقع پر منظور کیے گئے جب میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے زمان پارک میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران قومی اسمبلی میں واپسی کا اشارہ دیا تھا۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان نے اشارہ دیا ہے کہ ان کے اراکین قومی اسمبلی نگران حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بات چیت کے لیے ایوان میں واپس جاسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پی ٹی آئی اسمبلی سے بدستور باہر رہی تو حکومت اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نگراں حکومت کی تشکیل کریں گے تاہم اس بیان کی ڈان ڈاٹ کام کو آزادانہ طور تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔
پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے 11 اپریل 2022 کو پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے استعفے جمع کرائے تھے۔
اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپنے خط میں کہا کہ اس نے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو 30 مئی کو طلب کیا اور انہیں 6 سے 10 جون تک ذاتی طور پر پیش ہونے اور استعفوں کی تصدیق کا وقت دیا تھا لیکن ان میں سے کوئی نہیں آیا۔
اسپیکر نے جولائی میں پی ٹی آئی کے 11 اراکین کے استعفے قبول کرنے کی کوئی واضح وجہ بتائے بغیر ہی قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے تھے جن میں ڈاکٹر شیریں مزاری، علی محمد خان، فخر زمان خان اور فرخ حبیب شامل تھے۔
اس کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی مسلسل مزید ارکان کے استعفوں کی منظوری کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اسپیکر قومی اسمبلی اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ اراکین اسمبلی ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر استعفوں کے ملاقات کریں۔
اسپیکر نے پارٹی سے پہلے ہی پوچھا تھا کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے رول 43 کے مطابق انہیں پارٹی کے چیئرمین عمران خان سمیت 127 اراکین قومی اسمبلی سے انفرادی طور پر ملاقات کرنی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا انہوں نے استعفے آزادانہ اور کسی دباؤ کے بغیر دیے ہیں یا نہیں۔
گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو خط لکھ کر ان سے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو انفرادی طور پر استعفوں کی تصدیق کے لیے بھیجیں۔