وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے آڈیو لیکس کے معاملے پر سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت فیاض ترین کے خلاف مبینہ بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا۔
مقدمہ احمد محمود نامی شہری کی مدعیت میں درج کیا گیا۔مقدمے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے پر یہ بات سامنے آئی کہ شوکت ترین نے بدنیتی کے ارادے اور مذموم مقاصد کے ساتھ اس وقت کے وزیر خزانہ خیبرپختونخوا تیمور سلیم جھگڑا اور وزیر خزانہ پنجاب محسن خان لغاری کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم شوکت ترین نے صوبائی وزرائے خزانہ کو ان کی وزارتوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر سرپلس بجٹ واپس کرنے سے انکار کرنے کا کہا جو حکومت پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے کے لیے بات چیت کو متاثر کرتا۔
متن میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران ملزم شوکت ترین کو بلایا گیا اور مبینہ آڈیو کلپ میں کی گئی بات چیت کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تاہم انہوں نے تسلی بخش جواب نہیں دیے۔درج مقدمے میں کہا گیا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم اس معاملے سے متعلق حقائق چھپا رہا ہے اور اس بات چیت کے پسِ پردہ اپنے عزائم و مقاصد کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے۔
متن کے مطابق اس طرح کی شریر حرکت سے عوامی سکون میں خلل اور ریاست کے ستونوں کے درمیان ایک بدنیتی پیدا ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان کی معاشی صورتحال کی وجہ سے ریاست کے ہر شہری کے لیے خوف و ہراس کی فضا پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔چنانچہ یہ مبینہ بات چیت ریاست کے خلاف غداری تصور کی جاسکتی ہے، جس پر مقدمہ درج کیا جارہا ہے اور اس میں ملوث افراد کے کردار کا تعین تحقیقات کے دوران کیا جائے گا۔
سابق وزیر خزانہ کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124-اے (بغاوت)، 505 (فساد انگیز بیانات دینا) اور پیکا ایکٹ 2016 کے سیکشن 20 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے وزارت داخلہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو پٹری سے اتارنے میں مبینہ کردار سے متعلق کیس میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کو گرفتار کرنے کی اجازت طلب کی تھی جس کی اجازت اسے دے گئی تھی۔
باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ شوکت ترین کی آڈیو لیک پر ابتدائی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے نے ان کی لیک بات چیت کو آئی ایم ایف قرض پروگرام اور فنڈ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا۔