وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ضمنی مالیاتی بل ایوان میں پیش کر دیا، وزیر اعظم شہباز شریف اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 میں مختلف اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی گئی، شادی ہالز اور ہوٹلز، کمرشل لانز، مارکی اور کلب پر ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز، موبائل فونز پر بھی ٹیکس میں اضافے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔منی بجٹ میں فضائی ٹکٹس پر ایڈوانس ٹیکس عائد، مشروبات کی ری ٹیل پرائس پر بھی دس فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے، سیمنٹ پر 50 پیسے فی کلو ٹیکس میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈیڑھ روپے سے بڑھا کر دو روپے کلو کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ایوان میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل پر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں، مسلم لیگ (ن) کے دور میں جی ڈی پی میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، سلیکٹڈ حکومت کی وجہ سے معیشت نیچے کی طرف آئی، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں جی ڈی پی میں 36 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور میں ایک ہزار 389 ڈالر فی کس آمدن تھی، معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کے لیے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے، آج پوری قوم بھاری قیمت ادا کر رہی ہے، موجودہ حکومت کو بیمار معیشت ملی، پی ٹی آئی دور میں قرضہ 24 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 44 ہزار ارب روپے ہو گیا، مسلم لیگ ن کے دور میں کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی دو فیصد تھی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب معیشت کو سنبھالا تو ناگہانی سیلاب کی آفت نے گھیر لیا، وزارت منصوبہ بندی اور عالمی اداروں کے مطابق سیلاب کے باعث 30 ارب ڈالر نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹ پڑیں اور کپاس سمیت اہم فصلیں تباہ ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان حکومت نےآئی ایم ایف سےمعاہدہ کیا تھا، جنہوں نے معاہدہ نہیں پڑھا وہ ضرور پڑھیں، عمران خان نے اپنے ہی کیےمعاہدے سے انحراف کیا، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام تعطل کا شکار ہوا، آئی ایم ایف سے معاہدہ ایک حکومت نہیں ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے، ہماری حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرایا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 31 جنوری سے لے کر 9 فروری تک آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوئے، آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کا پولیٹیکل نقصان ہوا، آئی ایم ایف کا مشن حال ہی میں پاکستان آیا جس سے نویں اقتصادی مذاکرات ہوئے، آئی ایم ایف کے ساتھ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے پر بات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے، بجلی کے شعبے میں اصلاحات بہت ضروری ہیں، عالمی مالیاتی اداروں نے بجلی کے شعبے میں اصلاحات پر زور دیا ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کابینہ نے 170 ارب کے اضافی ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے، روزمرہ کی اشیا پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا، نمبر ون لگژری آئٹمز پر ٹیکس کو 25 فیصد کر دیا گیا ہے، دوسرا شادی ہالز کی تقریبات کے بلوں میں 10 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا، جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جا رہا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 500 ڈالر سے زائد کے درآمدی موبائل فون پر سیلز ٹیکس 25 فیصد کرنے کی تجویز ہے، درآمدی موبائل فون پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد تھا، ہماری نیت ٹھیک ہے انشاء اللہ دوبارہ ترقی کے سفر پر گامزن ہوں گے، لگژری آئٹمز پر جی ایس ٹی 17 سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کا مقصد امیر طبقے پر اضافی ٹیکس لگانا ہے، روزمرہ استعمال کی اشیاء پر اضافی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو مہنگائی کا احساس ہے، بےنظیرانکم سپورٹ پروگرام کے ماہانہ وظیفےمیں اضافے کے لیے مزید 40 ارب مختص کیے جا رہے ہیں، وزیراعظم اور کابینہ کفائت شعاری مہم اپنائیں گے، 3 ہزار ارب روپے کی بجلی میں ریکوری صرف 1600 ارب روپے کی ہوتی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلی حکومت کی نااہلی کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 2467 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، بجلی کے شعبے کیلئے اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں اور عالمی مالیاتی ادارے نے اصلاحات پر زور دیا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، ایل سیز کے مسائل بھی دور ہوں گے، ملکی معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے ناگزیر ہیں، ملک میں نیشنل اکنامک ایجنڈے کے لیے سب کو یکجا ہونا چاہیے، اللہ جسے بھی حکومت کا موقع دے لیکن اکنامک چارٹر پر تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 10 سال پہلے ہم نے اکانومی کی ڈائریکشن کو تبدیل کیا تھا، افسوس آج ہماری معیشت کہاں چلی گئی، چارٹر آف اکانومی کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، ہم سب کو ایک ہو کر معیشت کے حوالے سے روڈ میپ دینا ہوگا، آئیں سب کو دعوت دیتا ہوں ایک قومی سوچ اپنائیں، پوری امید ہے ان اقدامات کے بعد معیشت بہتر ہو گی۔
اس سے قبل نجی ٹی وی کے صحافی کے ساتھ وزیراعظم آزاد کشمیر کی نازیبا زبان کے استعمال پر صحافیوں نے احتجاج کیا، احتجاج کے دوران صحافیوں نے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کیا، جس پر سپیکرقومی اسمبلی نے کہا کہ قمر زمان کائرہ، شازیہ مری دیکھیں صحافیوں نے کیوں واک آؤٹ کیا۔