صحافی ارشد شریف کے قتل کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بہت دکھ ہے ارشد شریف کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، دفتر خارجہ 2 ممالک سے کیس میں مدد لینے میں ناکام رہا۔
سینیئر صحافی ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔
ارشد شریف کی والدہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر اعتراض کردیا، ارشد شریف کی والدہ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پر تحفظات ہیں۔
وکیل والدہ ارشد شریف نے عدالت کو بتایا کہ ارشد شریف کی والدہ اپنے مؤقف کے مطابق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرانا چاہتی ہیں۔
مرحوم ارشد شریف کی والدہ کے وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے ارشد شریف کیس میں گناہ گاروں کو سزا ملے اور بے گناہ لپیٹ میں نہ آئے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم یہاں کسی سزا اور بری نہیں کررہے صرف تحقیقات میں سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
وکیل شوکت عزیز صدیقی نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ شہناز بی بی کیس میں واضح کر چکی کہ عدالت کے پاس نگرانی کرنے کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اس کیس کی نگرانی نہ کرے، یہ معاملہ جسٹس فار پیس کو بھجوایا جائے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ تحقیقات کی نگرانی کر سکتی ہے۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لی ہے یا فیصلہ بدل گیا ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ اپنی آواز نیچی رکھیں کیا ہم یہ کیس نہ سنیں؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ایک نامور صحافی کے قتل پر از خود نوٹس لیا، سپریم کورٹ صحافت کے شعبہ کا بے حد احترام کرتی ہے، بنیادی انسانی حقوق کی خاطر عدالت نے از خود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اکتوبر کو قتل ہوا عدالتی نوٹس سے پہلے آپ کہاں تھے؟ ارشد شریف ایک اہم شعبے کے اہم فرد تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ بہت دکھ ہے ارشد شریف کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، دفتر خارجہ دو ممالک سے ارشد شریف کیس میں مدد لینے میں ناکام رہا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحقیقات کی نگرانی نہیں بلکہ اداروں کو تحقیقات میں تعاون دے رہے ہیں، ہمارا مقصد کسی کو کیس میں شامل کرنا یا تحفظ دینا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف ایک صحافی اور ایک پاکستانی شہری تھا، قتل کے اس واقعے پر ہم بھی دکھی ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے ازخود نوٹس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آنے کے بعد لیا، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کچھ پہلو تھے جن کی تحقیقات ضروری تھیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی کارروائی شروع ہونے پر ہی مقدمہ درج ہوا، مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کو حکومت فنڈز فراہم نہیں کر رہی تھی، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو فنڈز دلوائے اور وہ بیرون ملک گئی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت کے دوران کہا کہ تفتیش کی نگرانی کرنا عدالت کا اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں تو ازخودنوٹس ختم کر دیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ شہید کی والدہ کو لگتا ہے کہ ہم پانچ ججز انکی مدد نہیں کر سکتے؟ سیدھا سیدھا کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کوئی کارروئی ہی نہ کرے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صحافی برادری کے خدشات اور تحفظ کے لیے ازخودنوٹس لیا گیا تھا، عدالت سوموٹو میں کسی کو سزا دینے نہیں بیٹھی، جے آئی ٹی کے کام میں سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کر رہی، عدالت صرف حکومتی اداروں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ اتنا عرصہ کوئی قانونی کارروئی کیوں نہیں کی؟ جس پر وکیل شوکت عزیز صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایچ او تھانہ رمنا شہید کی والدہ کی درخواست پر مقدمہ درج نہیں کر رہا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی کو تحفظ دینا چاہتی ہے نہ کسی کو مجرم قرار دینا مقصد ہے، کوئی دلچسپی نہیں لے گا تو کارروائی مزید تاخیر کا شکار ہوگی، عدالت نے از خود نوٹس کی کارروئی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت صحافیوں کا بہت احترام کرتی ہے، صحافی ہمیں کچھ بھی کہیں کبھی توہین عدالت کی کارروئی نہیں کی، صحافی کو قتل کر دیا گیا جو دوسروں کے لیے سبق ہو سکتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ باہمی قانونی معاونت کے لیے تین ہفتے درکار ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تین ہفتوں بعد کیس دوبارہ سنیں گے، اس دوران بیرون ممالک سے باہمی قانونی معاونت سے متعلق پیش رفت ہوتو آگاہ کیا جائے۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔