لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ تک توسیع کردی۔لاہور ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانتوں پر سماعت کے دوران سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ 40 منٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑا رہا، میری زندگی خطرے میں تھی پھر ہم واپس آگئے، یہ غیر معمولی صورتحال ہے، میرے اوپر 40 دہشت گردی کے کیسز ہیں۔
عمران خان کی اسلام آباد میں درج 5 مقدمات میں حفاظتی ضمانت پر سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کمرہ عدالت میں موجود تھے، جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے بطور اعتراض کیسز پر سماعت کی۔عمران خان نے اسلام آباد میں درج 5 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین ان 5 مقدمات میں پہلے ہی حفاظتی ضمانت لے چکے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ پہنچنے پر صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اڑا دے گی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر نہیں اڑائے گی تو سوال یہ ہے کہ انتخابات اکتوبر میں کیسے ہوں گے، ایسے تو یہ کبھی کہہ دیں گے کہ پیسے نہیں ہیں، جنگل کا قانون بنا ہوا ہے۔
عمران خان نے وکلا سے درخواست کی کہ کمرہ عدالت میں تصویریں نہ بنائیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ عمران خان کی درخواستوں پر اعتراض عائد کیا گیا ہے کہ درخواستیں دوبارہ دائر کی گئی ہیں، عمران خان انہی کیسز میں ضمانت لینے اسلام آباد گئے تھے، وہ 40 منٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑے رہے۔
وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا، اسلام آباد میں عمران خان پر دو نئے مقدمات درج کر دیے گئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ جو حالات ہیں جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد فی الحال نہیں جا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سابق وزیر اعظم ہیں، انہیں سیکیورٹی تھریٹس ہیں، عمران خان کے پاس کوئی سیکیورٹی نہیں ہے، اس موقع پر سماعت کے دوران عمران خان روسٹرم پر آگئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید کہا کہ ہم نے پہلے سے لی گئی ضمانت میں توسیع مانگی ہے جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ سامنے ہے، ان پر کیسز ہوتے جاتے جارہے ہیں اور ہم سامنا کرتے جارہے ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ کو اسلام آباد کی ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم کل سے اس پر غور کر رہے ہیں لیکن عمران خان کی سیکیورٹی کا ایشو ہے، عمران خان آج بھی اپنی سیکیورٹی کے ساتھ عدالت آئے ہیں۔
عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اسلام آباد ٹول پلازہ سے عدالت پہنچنے میں کافی وقت لگا، اتنی پولیس اور ایف سی لگا دی تھی کہ پتا نہیں کوئی مجرم آرہا ہے، پتھراؤ کیا جارہا تھا شیل برسائے جا رہے تھے میری جان خطرے میں تھی۔
انہوں نے کہا کہ میری زندگی خطرے میں تھی پھر ہم واپس آگئے، اگر آپ ویڈیو دیکھیں تو میں چالیس منٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑا تھا، جو میرے ساتھ ہو رہا ہے یہ غیر معمولی صورتحال ہے، میرے اوپر 40 دہشت گردی کے کیسز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، میں موٹروے ٹول پلازہ پر پہنچا تو سب کچھ بند کردیا گیا، میری زندگی خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ میری جان خطرے میں ہے، میں جان بچا کر وہاں سے نکلا، میں وہاں سے نکلا تو دہشت گردی کے مقدمات درج کر دیے گئے، میں آج خفیہ طور پر عدالت میں آیا ہوں۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کی درخواست پر اعتراض ختم ہو چکا ہے، عمران خان نے پیر کے روز اسلام آباد میں عدالت میں پیش ہونا ہے، ابھی غیر معمولی سی صورتحال ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے پہلے کس تاریخ کو حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 17 مارچ کو عدالت نے حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، 18 کو عمران خان اسلام آباد گئے اور انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی، عمران خان کو انسداد دہشت گردی عدالت پہنچنے نہیں دیا گیا۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکیل اس بارے میں تصدیق کرتے ہیں کہ عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں دائر ہوئیں، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے علم میں نہیں کہ درخواستیں دائر ہوئیں کہ نہیں۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم تو خود سسٹم کے اندر آرہے ہیں، سرکاری وکلا کو مخالفت نہیں کرنی چاہیے، میں نے آج سے پہلے کچھ حفاظتی ضمانت میں توسیع فائل نہیں کی، 19 کو اتوار کی چھٹی تھی، میڈیکل ایشوز کی وجہ سے عمران خان لاہور میں قیام پذیر ہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 21 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ سے دیگر کیسز میں حفاظتی ضمانت لی گئی، عمران خان پر 100 سے زائد کیسز ہیں، اس دوران عمران خان نے کہا کہ 100 نہیں 140 کیسز ہیں۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ 22 مارچ کو ہمارا کوئی کیس نہیں تھا، 23 مارچ کی چھٹی تھی، عمران خان عدالت سے آئینی ریلیف مانگ رہے ہیں، 27 کو عمران خان نے دیگر کیسز میں اسلام آباد پیش ہونا ہے، یہ عدالت 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرے، بدنیتی کا عنصر عمران خان کی طرف سے نہیں پولیس کی طرف سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تمام کیسز سیاسی نوعیت کے ہیں، عمران خان پر حملہ ہو چکا ہے، اب بھی جان خطرے میں ہے، اسلام آباد میں ایک ہی دن کیسز میں پیشی سے بہت سے مسائل نہیں ہوں گے۔
وکیل عمران خان انتظار پنجوتہ نے کہا کہ ہم نے پانچ بیان حلفی جمع کروائے ہیں، عدالت نے وکیل کو بیان حلفی پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی جس پر وکیل نے بیان حلفی پڑھ کر سنایا، جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو بھی بیان حلف پڑھنے کی ہدایت کی جس پر عمران خان نے بھی جمع کرایا گیا بیان حلفی پڑھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکلا نے کچھ کہنا ہے، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے کچھ نہیں کہنا، عدالت نے عمران خان کے وکلا سے مکالمہ کیا کہ اگر اسلام آباد کی عدالت میں درخواستیں پینڈنگ نہ ہوئیں تو نتائج بھگتنا ہوں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو پھر وارننگ دے رہے ہیں کہ کوئی غلط بیانی ہوئی تو اس کے بہت سنجیدہ نتائج ہوں گے، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہوسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ تک توسیع کر دی۔