صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو خط تحریر کر کے کہا ہے کہ وہ توہین عدالت سے بچنے کے لیے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے وزیر اعظم کو یہ خط ایک ایسے موقع پر تحریری کیا گیا ہے جب ایک روز قبل ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو پنجاب میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خط کے متن میں صدر مملکت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے، ماضی قریب میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بنیادی اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے واقعات کو اجاگر کیا، ایسے واقعات کے تدارک اور اصلاح کے لیے انہیں وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی ضرورت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 105 یا 112 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر کو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تاریخیں تجویز کرنے کا حکم دیا تھا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کو بھی صوبائی اسمبلی کے لیے ٹائم فریم کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی اور نگراں حکومتوں نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کا کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز کا فرض ہے کہ وہ کمشنر اور الیکشن کمیشن کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں مدد کریں اور میری رائے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز اور سرکاری محکموں نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے اپنے اعلان پر عمل نہیں کیا اور سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کے تحت صدر کے ساتھ کوئی بامعنی مشاورت نہیں کی گئی۔
صدر مملکت نے خط میں وزیراعظم کی توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب بھی مبذول کرائی اور پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مظالم، شہریوں کے خلاف طاقت کے غیرمتناسب استعمال کی سنگینی کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں، کارکنوں، صحافیوں اور میڈیا کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے، سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، شہریوں کو بغیر وارنٹ اور قانونی جواز کے اغوا کر لیا گیا۔
صدر نے خط میں بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے مختلف آرٹیکلز کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکلز کی واضح طور پر خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور ایسے واقعات سے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ خراب ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتحال اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر تھا لیکن 2022 میں پاکستان 12 درجے تنزلی کے بعد 157ویں نمبر پر آ گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سال کے اقدامات سے اس انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی مزید نیچے آئے گی کیونکہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں میڈیا کو مزید دبایا گیا، حکومت سے اختلاف، تنقید دبانے کے لیے صحافیوں کو بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا، ایسا لگتا ہے کہ آزادانہ رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف دہشت کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہونے کے ناطے آئین میں درج پاکستان کے ہر شہری کے انسانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں اور وہ متعلقہ حکام کو حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہنے اور الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کریں۔
انہوں نے کہاکہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیر اعظم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔