ازخود نوٹس پر سماعت کا معاملہ ایک بار فل کورٹ میٹنگ میں جائے، اعظم تارڑ

وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ اگر چیف جسٹس سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کا کہتے ہیں تو یہی اصول ان کو اپنے ادارے پر بھی لاگو کرنا ہوگا اور اجتماعی سوچ سے ایسا فیصلہ صادر ہوگا جو ملک کی سیاسی تقدیر کے لیے مفید ہو۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرا یہ خیال ہے کہ ازخود نوٹس پر سماعت کا معاملہ ایک بار فل کورٹ میٹنگ میں جائے، چیف جسٹس اپنے گھر کو اکٹھا کریں اور اس کے بعد یہ سماعت شروع ہو۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 184 (3) کے اختیارات کے استعمال کے حوالے سے جو صورتحال ہے اور جو جوڈیشل فیصلہ موجود ہے جس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے لکھا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس میں تجویز دی گئی ہے کہ ایک فل کورٹ میٹنگ کی جائے اور طریقہ کار طے کیا جائے کہ 184 تھری کے مقدمات کس طرح سے سنے جائیں گے اور بینچز کی تشکیل کیسے ہوگی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج جب چار رکنی بینچ سماعت کے لیے بیٹھی تو اس میں بھی وہی صورتحال پیدا ہوگئی جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے سماعت سے معذرت کرلی۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے عوام یہ توقع کر رہے تھے کہ چیف جسٹس پاکستان جن کو ادارے کا سربراہ ہونے کے ناطے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے وہ ایسی صورتحال میں پہلے فل کورٹ میٹنگ کریں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ میری بھی یہ رائے تھی کہ یہ معاملہ ایک بار فل کورٹ میٹنگ میں جائے، چیف جسٹس اپنا گھر اکٹھا کریں اور دوبارہ یہ سماعت شروع ہو۔

انہوں نے کہا کہ تین رکنی بینچ نے جب سماعت شروع کی تو پاکستان بھر کے وکلا کی اعلیٰ قیادت بشمول وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، چیئرمین ایگزیکٹو بار کونسل، اسلام آباد بار کے صدر اور اٹارنی جنرل نے بھی یہ استدعا کی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ چیف جسٹس نے فی الحال یہ مناسب سمجھا کہ تین رکنی بینچ پر ہی سماعت آگے بڑھائی جائے، ہمیں حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں، یہ بہت بڑا آئینی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ یہ بحران کی شکل اختیار کیے جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ابھی یہ توقع کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اعتماد میں لے کر چار پانچ روز سے گفتگو کا مرکز رہنے والے معاملات پر بات کریں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں شروع دن سے کہہ رہی ہیں کہ جب ایسے معاملات ہوں جن میں سیاسی پولرائزیشن نظر آرہی ہو اور تقسیم نظر آرہی ہو تو کم از کم عدالت کو اکٹھے بیٹھ کر ان کو حل کرنا چاہیے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر چیف جسٹس سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کا کہتے ہیں تو یہی اصول ان کو اپنے ادارے پر بھی لاگو کرنا ہوگا اور اجتماعی سوچ سے ایسا فیصلہ سادر ہوگا جو ملک کی سیاسی تقدیر کے لیے مفید ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور دیگر نے کل اس حوالے سے سیاسی میٹنگ بھی رکھی ہے تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ ان موجودہ حالات میں اس کیس کی سماعت اگر تین رکنی بینچ کرے گا تو سیاسی استحکام کے حوالے سے دیے گئے فیصلوں پر سوال نہ ہوجائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بار پھر یہ رائے ہے کہ جن حالات سے یہ ملک اور 22 کروڑ عوام دوچار ہے تمام اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اجتماعی سوچ کے ساتھ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بیٹھیںم اگر اقلیتی فیصلے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ بحران مزید سنگین ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ ایک ایسا ملکی معاملہ ہے جو شدید اہم ہے، اچھا ہوتا اگر اس پر فل کورٹ بینچ سماعت کرتی اور حکم جاری کرتی کہ معاملات کو اس نہج میں لے جائیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آدھی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ 184 تھری کا نہیں ہے بلکہ سیاسی سوال ہے جس کو ہائی کورٹ میں زیر التوا سماعتوں میں حل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سربراہ اختلافی رائے کو نظرانداز کرکے معاملے کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس نے فل کورٹ کا عندیہ دیا ہے، امید ہے کہ پیر کے دن اچھے حل کے ساتھ آئیں گے اور ہم دیکھیں کہ سپریم کورٹ اجتماعی طور پر بیٹھ کر ملک کو آئینی راستہ اور سیاسی استحکام دینا چاہتی ہے۔