حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دھاندلی کے دو بڑے مجرم آج بھی دندناتے گھوم رہے ہیں لیکن آپ کوئی سوموٹو نوٹس نہیں لے رہے اور یہ چیزیں ریکارڈ پر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ووٹ ووٹر کا بنیادی حق ہے لیکن اگر کہیں کوئی ووٹرز ووٹ کے حق سے محروم ہو جائے یا جزوی طور پر ایسا واقعہ رونما ہو جائے کہ مرد ہو یا خواتین، وہ الیکشن میں ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو جائیں تو اس وقت اگر اس آپشن کو لیتی ہے تو سوموٹو لے لیکن مجموعی طور پر پورے ملک یا صوبے میں انتخابات کرانا اور اس کی تاریخ کا تعین کرنا یہ تو الیکشن کمیشن کا انتظامی اختیار ہے، کس طرح آپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کررہے ہیں اور اس کو ان اختیارات سے روک رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شیڈول دینا اور الیکشن دینا یہ الیکشن کمیشن کا انتظامی مسئلہ اور اس کا آئینی اختیار ہے اور اس کے آئینی اختیار پر عدالت کو اس طرح سے جھپٹنے کی جرات نہیں کرنی چاہیے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم دوبارہ اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ سوموٹو کیس 3-4 سے مسترد ہو چکا ہے لہٰذا اس کی دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں لہٰذا ہم موجودہ بینچ، چیف جسٹس اور ان کے دونوں رفقا پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ آج کہا جا رہا ہے کہ آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن کے اندر اندر الیکشن کرائے جائیں، یہ آئین کا تقاضا اس دن کیوں نہیں تھا جب یہی سپریم کورٹ آمر جنرل مشرف کو تین سال میں الیکشن کرانے کی اجازت دے رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے، مردم شماری کے بعد نئی ووٹر لسٹ بننی ہے، نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں، تو یہ سب امور مدنظر رکھنے ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنا ہے، ملک کو ایک رکھنے کے لیے ہم نے 1947 سے وطیرہ رکھا ہوا ہے کہ الیکشن سب ایک دن ہوتے ہیں ورنہ کل اگر پنجاب میں کسی کی اکثریت آجائے تو قومی اسمبلی میں اسی پارٹی کی حکومت آئے گی، یہ حادثات ہوتے ہیں اور کیا ہمیں بنگلہ دیش ٹوٹنے کا حادثہ بھول گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ احتیاط سے کام لیا جائے اور ضد نہ کی جائے، فریق بن کر کردار ادا نہ کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد اور غیرجانبدار رہنے دیا جائے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے اور نہ ہی ہم ایسے مجرموں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنا چاہیں گے۔