اسلام آباد کی عدالت نے رہنما پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) علی امین گنڈا پور کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔علی امین گنڈا پور کو اسلام آباد کچہری میں ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔دوران سماعت حکومتی وکیل نے علی امین گنڈا پور کے خلاف الزامات پڑھ کہ سناتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے آڈیو کے ذریعے امن و امان قائم کرنے والے اداروں میں خوف و ہراس پیدا کیا، ان کے خلاف انتہائی سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما نے آڈیو میں اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی بات کی اور کارکنوں کو اسلحہ جمع کرنے کی ہدایات دیں، ان کیسوں میں قانون کے مطابق علی امین گنڈا پور کی عمر قید کی سزا بنتی ہے۔علی امین گنڈا پور کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور پر الزامات بے بنیاد ہیں، انہوں نے جنہیں دھمکایا انہوں نے کوئی کیس نہیں کیا، انہیں یہ کیسے پتا چلا کہ یہ آڈیو علی امین گنڈا پور کی ہے، ججوں اور مریم نواز کی آڈیوز آئیں، اُن پر کتنے پرچےہوئے۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کی آڈیوز پر اس وقت پرچہ کیوں نہیں دیا گیا، اس ملک میں کلبھوشن کو سزا نہیں دے سکے ، علی امین گنڈا پور کے خلاف محاز کھول لیا ہے۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ بہت سی موبائل ایپلی کیشنز ہیں جن کے ذریعے آوازیں بنائی جا رہی ہیں، دوسروں کی آوازیں بدلنے والی ایپلی کیشنز بچے بچے استعمال کر رہے ہیں، کیسے فیصلہ کیا گیا کہ یہ علی امین گنڈا پور کی آواز ہے۔
بابر اعوان نے مزید کہا کہ علی امین گنڈاپور کو 2 دن پہلے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے بعد 2 ریمانڈ لیے جا چکے ہیں، 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ اس کیس میں یا تو رہا کر سکتے ہیں یا 24 گھنٹے کا ریمانڈ دے سکتے ہیں، قانون کے مطابق سینیئر مجسٹریٹ ہی ریمانڈ دے سکتا ہے، اسلام آباد کے مجسٹریٹس کے درمیان ڈی سی بننے کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) امجد شعیب، صدیق جان اور عمران ریاض خان کے خلاف بھی یہی الزامات لگائے گئے، عمران ریاض کا قصور یہ ہے کہ اس کے نام میں عمران لگا ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ میں کیس کے میرٹس پر بات نہیں کرنا چاہتا، آج میرٹس کا دن ہی نہیں ہے، آج آپ نے دیکھنا ہے کہ آپ کتنا ریمانڈ دیں گے، آئین کے آرٹیکل 154 کےتحت رپورٹ میں جو الزامات لگے ہیں اس تفتیشی کا نام بتایا جائے، کیا ڈپٹی کمشنر کی 16 ایم پی او کے تحت کوئی شکایت ہے، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں تمام شواہد موجود ہیں۔
انہوں نے استدعا کی کہ آپ کو روزے کا واسطہ ہے میرے سوال کا جواب دےدیں، اس پر ڈیوٹی جج نوید خان نے جواب دیا کہ اس کیس میں ڈی سی کی شکایت موجود نہیں ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ اس آڈیو کی بنیاد پر کسی پولیس والے نے شکایت نہیں کی، گولڑہ پولیس اسٹیشن میں ایف آر درج ہوئی ، وہاں کیا جرم ہوا، 24 گھنٹے سے علی امین گنڈاپور تحویل میں ہیں کیا تحقیقات کی گئیں، ان کے مطابق آڈیو کی بنیاد پر گرفتاری ہوئی، ایف آر کے مطابق اس آڈیو سے اداروں میں خوف و ہراس پیدا ہوا، ان اداروں کا نام بتائیں، اگر باہر سے کوئی بڑی دھمکی آئی تو یہ پھر کیا کریں گے، پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی ایک دھمکی ملی تھی، سب نے دیکھا کیا ہوا، ہمارے ٹیکس سے انہیں تنخواہیں ملتی ہیں، اگر یہ دھمکی سے ڈرتے ہیں تو دلیر لوگوں کو بھرتی کریں۔
بابر اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ ریمانڈ کا کیس نہیں بلکہ رہائی کا کیس ہے، اگر ریمانڈ دینا ہے تو 24 گھنٹے سے زائد کا نہ دیا جائے۔
بابر اعوان نے علی امین کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’علی امین گنڈاپور کو صحت کے مسائل ہیں، ریمانڈ کے دوران وکلا کو علی امین سے ملاقات کی اجازت دی جائے‘۔
پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے استدعا کی کہ 7 اے ٹی اے کے تحت علی امین کو 24 گھنٹے کے اندر انسداد دہشتگردی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ اس کیس میں مجسٹریٹ کے پاس ڈسچارج کے اختیار نہیں، اس پر علی امین گنڈاپور کے وکیل نے کہا کہ سارے اختیارات انہی کے پاس ہیں۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ ریمانڈ کی اسٹیج پر کیس کو ختم نہیں کیا جا سکتا، مجسٹریٹ کے پاس اس کیس کو ختم کرنے کا اختیار نہیں۔
اس دوران کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور نے عدالت سے استدعا کی کہ ’مجھ پر چادر ڈالی گئی ہے، میری سانس بند ہو رہی ہے‘۔
بعدازاں عدالت نے تحریک انصاف کے وکلا کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو علی امین گنڈا پور کا ایک دن کا ریمانڈ دے دیا۔
ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے حکم دیا کہ علی امین گنڈا پور کو کل انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا جائے۔