رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں عسکریت پسندوں کے حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں کم از کم 854 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے، یہ تعداد 2022 کے مجموعی اعدادوشمار کا نصف ہے۔’سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز‘ کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے مارچ کے دوران 219 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 358 اور زخمیوں کی تعداد 496 رہی۔سب سے زیادہ 68 فیصد اموات خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوئیں جن کی تعداد 245 ہے، اس کے بعد بلوچستان میں 64 (18 فیصد) اموات رپورٹ ہوئیں جبکہ دیگر اموات سندھ، پنجاب اور اسلام آباد سے رپورٹ ہوئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 کا آغاز سیکیورٹی فورسز کے لیے پوری دہائی کے مہلک ترین مہینے کے ساتھ ہوا، جبکہ گزشتہ برس دسمبر بھی دہائی کا مہلک ترین مہینہ ثابت ہوا تھا۔
جنوری میں سیکیورٹی اہلکاروں کی 111 شہادتیں ہوئیں جوکہ ایک ہی مہینے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں کی دوسری سب سے بڑی تعداد ہے، جولائی 2014 کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی 118 شہادتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔تاہم پہلی سہ ماہی کے دوران پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی 63 ہلاکتیں رپورٹ کی گئیں جوکہ گزشتہ برس 136 تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں اور سرکاری اہلکاروں کی ہلاکتیں تقریباً دوگنی ہو گئی ہیں، جو گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 88 تھیں اور رواں سال بڑھ کر 167 ہو گئیں۔پہلی سہ ماہی میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کے زیادہ تر واقعات سیکورٹی اہلکاروں، سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں کے خلاف دہشت گرد حملے تھے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کم از کم 22 حملے کیے جن میں 107 ہلاکتیں ہوئیں۔