سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر فیصلہ غلط ہے تو اکثریت کرے یا ایک کرے غلط ہی رہے گا، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں۔اسلام آباد میں ’آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973کا آئین صرف سپریم کورٹ کے لیے نہیں، اس میں سب کے حقوق ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جارہا، آئین صرف سیاست دانوں چند افراد پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننا مشکل کام تھا وہ تو 1947میں ہوگیا مگر لوگوں کو آئین دینے والا کام بروقت نہیں ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا، 1958 میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگایا دیا، 1962میں اس شخص نے اپنا آئین بنالیا، 1965میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ایک اور ڈکٹیر کے حوالے کردیا، جس کے بعد 1971 میں ملک ٹوٹ گیا، ملک اچانک نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کا بیچ بویا گیا، یہ زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بویا ہوا زہریلا بیج جب پروان چڑھا تو اس نے پوری قوم کے ٹکڑے کر دیے، جو کام ہم آج کرنے بیٹھے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی نکلیں گے، جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک ٹھہرتی نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آئین کو اس طرح پیش نہیں کیاجاتا جس کا وہ مستحق ہے، آئین کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں یہ کتاب سب کی ہے، آئین میرے لیے صرف کتاب نہیں ہے، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، ہم آئین کی تشریح کرسکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973 میں ملک میں پہلی بار عوامی نمائندگی سے آئین بنایا گیا، ضیا الحق 58 ٹو بی کا استعمال کر گئے، پھر اس کے بعد غلام اسحٰق نے 2 مرتبہ 58 ٹو بی کا استعمال کیا، مشرف نے آئین کی شق 277ٹرپل اے کے تحت خود کو آئینی تحفظ دیا۔انہوں نے کہا کہ اگر فیصلہ غلط ہے تو اکثریت کرے یا ایک کرے غلط ہی رہے گا، آج اگر جسٹس منیر کے فیصلے پر ریفرنڈم کرائیں تو شاید ہی کوئی حمایتی ہو، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ پکار رہی ہے ماضی سے سبق سیکھو، تاریخ کتنا سکھائے گی 7 سبق تو دے چکی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1977کے انتخابات پر الزامات لگے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے، اس کے باوجود دونوں مخالفیں ٹیبل پر بیٹھے، دونوں فریقین میں معاملات طے ہوگئے معاہدے پر دستخط ہونا تھے، پھر ایک شخص آگیا جو 11 سال قوم پر مسلط رہا۔
انہوں نے کہا کہ پھر عدالت سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت ہوئی جس کے بعد جمہوریت پسندی اور ریفرنڈم کا ڈراما کیا گیا، جب ریفرنڈم ہوا ہے تو ٹرن آوٹ 98 فیصد رہتا ہے ، حالانکہ ریفرنڈم میں پولنگ بوتھ خالی ہوتے ہیں، عام انتخابات زور شور سے ہوتے ہیں ٹرن آوٹ 60 سے آگے نہیں جاتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 184/3سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے، یہ شق مظلوموں کے لیے مزدورں کے لیے رکھی گئی تھی، یہ بچوں کی جبری مشقت اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے سے متعلق تھی، ایسے افراد جن کو وکیل تک رسائی نہیں ان کے لیے ہے، مگر پاکستان میں اس کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس کی شق کے استعمال کے حوالے سے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے، اس میں اپیل کا حق نہیں ہے اس لیے اس کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، کہیں نہیں لکھا کہ یہ صرف سینیئر جج یا چیف جسٹس کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے دوستوں کی رائے ہےکہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، شق بتادیں، میری اصلاح ہوجائےگی میں آپ کےنظریہ پر چل سکوں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا، آئین پر کئی وار ہوئے لیکن وہ آج بھی مضبوطی سے کھڑا ہے، 18 ویں ترمیم میں پرانی غلطیوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی، میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن میں شفافیت کے لیے نگراں حکومتوں کا تصور دیا گیا، جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ جب سے میں جج بنا ہوں اس وقت سے میں نے کبھی یہ سفارش نہیں کی کہ مجھے فلاں قسم کے مقدمات میں بٹھایا جائے اور فلاں قسم کے مقدمات میں نہ بٹھایا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے، وفاق نے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردیے۔ان کا کہنا ہے کہ سب سے بری چیز تکبر اور انا ہے، کسی عہدے پر ہوں تو آپ میں انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی پھر میں جج نہیں رہا، اختلاف سے انا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ زندہ معاشروں میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائے گی۔