چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، آئین کے مطابق چلنےکی ضرورت ہے،کوئی بہانہ تلاش نہ کیاجائے۔آئین میں اقلیتوں کے حقوق پرکانفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ جسٹس کارلنیئس 1960سے 1968تک چیف جسٹس رہے، وہ جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے، ججزکوانصاف کرناہے تو جسٹس کارلنیئس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں، جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 1964میں دوصوبوں نے جماعت اسلامی پرپابندی لگائی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی، جسٹس کارنیلئس نےکہا یہ بنیادی انسانی حقوق کامعاملہ ہے، پاکستان کے ہر شہری کوبنیادی حقوق حاصل ہیں، جسٹس کارنیلئس نے کہا ایگزیکٹو آفیسربنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، تین دہائیوں کے دوران انتہاپسندی کےباعث بےشمارجانیں گئیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کے لیڈرز، ادارے اور عوام آئین کی پاسداری کیلیے پرُعزم ہیں ، اسی حوالےسے سیاسی قیادت نے مذاکرات شروع کیے، آئین اگر کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں تویہ ہماری چوائس نہیں ڈیوٹی ہے، آئین کا تحفظ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، عدالتی فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، ہمیں بتایا گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آئین کے مطابق چلنےکی ضرورت ہے،کوئی بہانہ تلاش نہ کیاجائے، آپ اس کو تنازع کہیں لیکن میں اسے تنازع نہیں کہوں گا۔