وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمد اسحاق ڈار نے کہاہے کہ وزیراعظم محمدشہباز شریف نے سیاست کی بجائے ریاست کوترجیح دی اورملک کودیوالیہ ہونے سے بچایا، نئے مالی سال کے دوران صنعت کاری کو فروغ دیا جائیگا، زراعت پرخصوصی توجہ دی جائیگی، برآمدات میں آئی ٹی کا شعبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، محصولات کے نئے ذرائع اور وسائل تلاش کئے جائیں گے، حکومتی اقدامات سے انشاء اللہ 3.5 فیصد جی ڈی پی نموحاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، حکومت فائیو ایز (ایکسپورٹ، ایکوئٹی، انرجی، امپاورمنٹ اور انوائرمنٹ) کو ترجیح دے رہی ہے، حکومت کی ترجیح ہے کہ کلی معیشت مستحکم ہوں اور نمو کی بنیاد پائیدار ہو، تھری ایز کے بعد اب فائیو ایز پالیسی پر آئندہ کا روڈ میپ بنایا ہے۔جمعرات کویہاں قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 2022-23 کے اجراء کے موقع پر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی پروفیسراحسن اقبال اوروزیرمملکت ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک مشکل وقت سے گزررہاہے، گزشتہ ساڑھے 4 برسوں میں ملک کی 24 ویں بڑی معیشت کو47 ویں معیشت بنادیا گیا، 2017-18 میں پاکستان کی گروپ 20 میں شمولیت کی باتیں کی جارہی تھیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ کہ ہماری معیشت نیچی چلی گئی، ملک کو دوبارہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں لانا ایک بڑا چیلنج ہے، اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف پائیدارمعاشی ترقی حاصل کرنی ہے بلکہ بیرونی ادائیگیوں کوبھی یقینی بنانا ہے، ان مشکلات کوتمام شراکت داروں کے تعاون سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری ٹیم نے مسلسل محنت کی اورطویل عرصہ کے بعد حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ نہ صرف کم ہوابلکہ یہ فاضل ہوگیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی معیشت میں استحکام کیلئے اقدامات کاسلسلہ جاری رہے گا، ہماری معیشت میں استعداد اورجان ہے، ہمیں امیدہے کہ ہم 1999 اور2013کی طرح ملک کومعاشی مشکلات سے نکال کرترقی کی راہ پرگامزن کریں گے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تمام تکنیکی معاملات مکمل ہیں، پاکستان نے 9 ویں جائزہ کے تحت تمام پیشگی اقدامات کرلئے ہیں، ہم اس پوزیشن میں ہے کہ کوملک کے دیوالیہ ہونے کاکوئی خطرہ نہیں ہے، ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کومکمل کیا جائے، آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ حکومت کے وعدوں کو پوراکرنے کیلئے ہم نے مشکل فیصلے کئے جس کی ہم نے سیاسی قیمت بھی اداکی ہے مگرہمارے لئے سیاست سے ریاست اہم ہے، ہم نے بجلی، توانائی اوردیگرشعبوں میں اصلاحات کے دلیرانہ فیصلے کئے مگر اس کے ساتھ ساتھ جامع اورپائیدارمعیشت کی طرف ہمیں جانا ہے، اس سے سرمایہ کاروں کااعتماد بحال ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ 2013 میں ہم نے سٹاک مارکیٹوں کاانضمام کیا جس سے 2013 سے 2018 کے دوران انڈیکس 19ہزار پوائنٹس سے بڑھ کر50 ہزار پوائنٹس سے تجاوزکرگیا، ہماری مارکیٹ کیپٹلائزیشن 100 ارب ڈالر تک بڑھ گئی جو ڈی ویلیو ایشن اورگزشتہ حکومت کی ناقص کارگردگی سے 25 ارب ڈالر تک گرگئی۔انہوں نے کہاکہ جن مشکل حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی تومعیشت کے تمام اشاریے زوال کی طرف جا رہے تھے، حسابات جاریہ کے کھاتوں اور تجارتی خسارہ میں نمایاں اضافہ ہواتھا، ہم اگر حکومت نہ سنبھالتے تو خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوجاتا کیونکہ گزشتہ حکومت کے آخری سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 6.4 ارب ڈالرکی کمی آئی تھی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پراپیگنڈہ پرتوجہ دینے کی بجائے ہمیں اپنی معیشت پراعتماد کرنا چاہئے، موجودہ حکومت نے معیشت میں زوال کے عمل کوروک دیا ہے اوراب ہمیں اس معیشت کواٹھان کی طرف لیجانا ہے۔گزشتہ حکومت جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد بتا رہی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ پہلے سال منفی بڑھوتری کے بعد بیس(base) کو تبدیل کرلیاگیا جس سے اشاریوں پرفرق پڑا،2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ حکومت کے دورمیں 7.9 فیصد پرپہنچا حالانکہ ہماری سابق حکومت نے ضرب عصب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کیلئے مالی وسائل بھی فراہم کئے تھے۔
گزشتہ حکومت نے تجارتی خسارہ بڑھا دیا، پالیسی ریٹ کو 6.1 سے بڑھا کر14 فیصد پرپہنچا دیاگیا، سابق حکومت کے دورمیں اوسط ماہانہ گردشی قرضہ 330 ارب روپے تھا، ہمارے سابق حکومت کے دورمیں یہ 129 ارب روپے ماہانہ تھا، سابق حکومت نے 2467 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑا ہے، اسی طرح 2018میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کاحجم 2018 میں 3.7 فیصدتھا جو پی ٹی آئی حکومت نے 13.9 فیصدکی سطح پرپہنچا دیا، مجموعی طورپر قرضہ کو25ہزار ارب روپے سے بڑھا کر49 ہزار ارب پرپہنچادیاگیا، سابق حکومت کے دورمیں قرضوں میں مجموعی طورپر97 فیصداضافہ ہوا، پالیسی ریٹ بڑھانے سے بھی قرضوں میں 7ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ سابق حکومت نے معیشت کی تابوت میں آخری کیل آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے وعدوں کوتوڑنے کی صورت ٹھونک کرکیا اس اقدام سے بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثرہوئی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ گزشتہ ایک سال میں عالمی سطح پرجی ڈی پی کی شرح میں 50 فیصدکمی ہوئی ہے، اسی طرح عالمی سطح پرمہنگائی کی شرح میں 51 فیصداضافہ ہوا، عالمی تجارت میں تقریباً 5 فیصدکی کمی ہوئی، جس کے اثرات سے پاکستان بھی متاثرہواہے، اس کے ساتھ گزشتہ سال آنیوالے تاریخ کے بدترین سے پاکستان کوتقریباً30 ارب ڈالرکانقصان ہواہے، حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اوربحالی کیلئے کام کررہی ہے، ابتدائی طورپر4 برسوں میں 15 ارب ڈالرکا تخمینہ ہے جس میں آدھا حصہ پاکستان کی حکومت اورباقی کے فنڈز ممالک اوردوطرفہ اورکثیرالجہتی شراکت دار فراہم کریں گے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت نے جاری مالی سال میں کفایت شعاری کے اقدامات کئے، غیرہدفی زرتلافیوں کوختم کیاگیا، تمام بیرونی واجبات اورذمہ داریوں کی وقت پرادائیگی کویقینی بنایاگیا، درآمدات میں اشیاء خوراک اورادوایات کوترجیح دی گئی، اس کے ساتھ ساتھ برآمدات پربھی بھرپورتوجہ دی گئی، الحمدللہ لیٹرآف کریڈٹ کے 90 فیصدمسائل حل ہوچکے ہیں۔زری پالیسی کوسخت رکھا گیاہے مگر افراط زرکے تناظرمیں ایسا کرنا ضروری تھا، میں ہمیشہ سے ڈی ویلیوایشن کے خلاف ہوں کیونکہ روپیہ کی قدرکم ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ میڈیا کوعوام میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اورنہ ہی غیرضروری طورپرڈالر اورسونا خریدنا چاہئے، بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا روپیہ انڈرویلیو ہے اوراس وقت بھی ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کی حقیقی قدر 244 روپے کے لگ بھگ ہے، 40 سے لیکر45 روپے تک کا گیپ مصنوعی ہے، ہمیں اپنے ملک کے مفاد کواجاگرکرنے کی ضرورت ہے، ان مشکل حالات کے باوجود ہم نے کمرشل بینکوں کے 5.5 ارب ڈالر اوربانڈز کی میچیورٹی کی صورت میں ایک ارب ڈالرکی ادائیگی کی ہے، دسمبرکی سہ ماہی میں پاکستان کے قرضوں میں 4 ملین ڈالر کے قریب کمی ہوئی تھی، ہم نے تمام بیرونی ادائیگیوں کو یقینی بنایا ہے اورملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ سماجی تحفظ اورمعاشرے کے معاشی طورپرکمزورطبقات کوریلیف فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، حکومت نے بی آئی ایس پی کا بجٹ 400 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مستفید ہونے والوں کے مشاہیرہ میں اضافہ کردیاگیا۔
رمضان پیکج کے تحت 75 ارب روپے کا ریلیف فراہم کیاگیا، کسان پیکج کے تحت 2 ہزار ارب روپے کا اعلان کیاگیا جس میں سے 1750 ارب روپے جاری ہوچکے ہیں، اس سے ملک کی زرعی پیداوارپرمثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔حکومت اسلامی فنانسنگ اوربینکاری کے فروغ میں بھی سنجیدہ ہے، اسلامی فنانسنگ کے تحت ایک اورتین سالہ مدت کے اجارہ جاری کئے گئے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں سٹیٹ بینک اورنیشنل بینک کی اپیلیں واپس لی گئی، اس وقت ملک میں اسلامی بینکاری کا حجم 21 فیصد ہوچکا ہے جس میں آنیوالے مہینوں اورسالوں میں مزیداضافہ ہوگا۔ایران،افغانستان اورروس کے ساتھ بارٹرتجارت کا آغاز کیاگیا، اس سے تجارت میں اضافہ ہوگا، مزیدممالک کے ساتھ بھی اس طرح کے معاہدے ہوں گے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ تمام ترمشکلات اورچیلنجوں کے باوجودمعاشی اشاریوں میں بہتری آرہی ہے، جاری مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو0.29 فیصد ہے جبکہ نے مالی سال کیلئے یہ ہدف 3.5 فیصدمقررکیاگیاہے، جاری مالی سال میں زراعت اورخدمات کے شعبہ جات میں بہتری آئی ہے۔جولائی سے مئی تک صارفین کیلئے قیمتوں کا اشاریہ 29.2 فیصد ریکارڈکیاگیا جبکہ کورانفلیشن کی شرح شہری علاقوں میں 16 فیصد اوردیہی علاقوں میں 20 فیصد ہے جس کااوسط 18 فیصد بنتا ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ ایف بی آر نے جاری مالی سال کے دوران اچھی کارگردگی دکھائی ہے، درآمدات میں کمی کے باوجود جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ایف بی آر نے 6210 ارب روپے کے محاصل اکھٹا کئے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 16 فیصد زیادہ ہے، نئے مالی سال میں ایف بی آر میں اصلاحات اوربہتری کا عمل جاری رہے گا، ٹیکس کی بنیادمیں وسعت لائی جائیگی، 31مارچ تک ایف بی آر نے 7لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کا ہدف مقررکیاتھا جو9 لاکھ 12ہزار 392 تک پہنچ گیاہے، پرائمری بیلنس میں بھی بہتری آئی ہے، حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں 76 فیصدتک بہتری آئی، گزشتہ سال حسابات جاریہ کے کھاتوں کاخسارہ 13.7 ارب ڈالرتھا جو جاری مالی سال کے پہلے 11ماہ میں 3.2 ارب ڈالرکی سطح پرآگیاہے، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں درآمدات 51.2 ارب ڈالرریکارڈکی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 72.3 ارب ڈالرکے مقابلہ میں 29.2 فیصدکم ہے، برآمدات اورترسیلات زرمیں کمی آئی ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ اس حکومت نے وہ سخت اورمشکل فیصلے کئے ہیں جو ریاست کیلئے ضروری تھے،وزیراعظم محمدشہباز شریف کو ہمیشہ تاریخ میں یادرکھا جائیگا جنہوں نے سیاست کی بجائے ریاست کوترجیح دی اورملک کودیوالیہ ہونے سے بچایا۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ نئے مالی سال کے دوران صنعت کاری کو فروغ دیا جائیگا، زراعت پرخصوصی توجہ دی جائیگی، برآمدات میں آئی ٹی کا شعبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس شعبہ میں برآمدات کو 4 ارب ڈالرکی سطح تک لیجایا جائے، محصولات کے نئے ذرائع اوروسائل تلاش کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ 1100 ارب روپے کے لگ بھگ ترقیاتی بجٹ بھی دیا جارہاہے،ماحول دوست توانائی بھی ہماری ترجیح ہے، 2030 تک مجموعی توانائی میں گرین انرجی کاحصہ 30 فیصد تک لے جانے کاہدف ہے اس سے توانائی کے بل میں 10 سے لیکر15 فیصد تک کی بچت ہوگی۔ ان اقدامات سے انشاء اللہ 3.5 فیصد جی ڈی پی نموحاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ سرکاری ملازمین اورپنشنرز کی تنخواہوں میں گنجائش کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ میثاق معیشت پربات چیت انتخابات کے بعد ہوں گی۔