سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی اور ریویو آف ججمنٹس کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کرلی تاہم ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی اور ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس کیس کی سماعت ہوئی، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے فریق بننے کی درخواست کی جسے عدالت عظمیٰ نے منظور کرلیا۔عدالت عظمیٰ نے ججمنٹ ریویو ایکٹ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی، ریویو ایکٹ کیخلاف وکلاء کے دلائل کل بھی جاری رہیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اپیل اور نظر ثانی میں بہت فرق ہے، اب ایکٹ سے اپیل اور نظرثانی کو یکساں کردیا گیا ہے، کیا اب اس اپیل کیخلاف بھی نظرثانی میں جانے کا آپشن ہو گا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو یہیں مطمئن کرنا ہو گا، علی ظفر نے کہا کہ ایسے ہی قوانین بنتے رہے تو کیا پتہ کل سیکنڈ اپیل کا قانون آجائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بھارت میں ان چیمبر کیوریٹیو لگایا گیا ہے وہاں یہ ریویو 2 گراؤنڈز پر ہوتا ہے، ہمارے یہاں ریویو ایکٹ میں آرٹیکل 187 بھی شامل ہوتا تو اچھا نہیں تھا، آپ کو نہیں لگتا یہ معاملات جلد بازی کے بجائے تحمل سے دیکھے جائیں۔
اس سے قبل چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے یہ درخواستیں کس کی جانب سے دائر کیں؟ علی ظفر نے بتایا کہ درخواست پی ٹی آئی رہنماء عمر ایوب نے دائر کی ہے، سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے فیصلوں پر نظرثانی کرسکتی ہے، آرٹیکل 188 میں ریویو کا ذکر ہے، ریویو کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ واضح ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پوچھا کہ بتائیں پھر دونوں قوانین میں کیا یکساں ہے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ریویو ایکٹ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، ریویو عدلیہ کی آزادی میں بھی مداخلت ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ریویو ایکٹ کا مقصد ایک ہی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دونوں قوانین الگ الگ دائرہ اختیار سے متعلق ہیں، وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ محض قانون سازی سے سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دینا خلاف آئین ہے۔
علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حتمی ہونے کا ایک تصور موجود ہے، نظرثانی میں شواہد دوبارہ نہیں دیکھے جاتے، نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا نہیں ہوسکتا، نظرثانی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ سابقہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو۔
انہوں نے کہا ہے کہ جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم جیسے ججز اس پر فیصلے دے چکے ہیں، یہ سب ہیوی ویٹ ججز تھے جو بہت کلیئر تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 188 ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بھی بات کرتا ہے، جس پر علی ظفر نے دلائل دیئے کہ نظر ثانی اور اپیل دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، آئین سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا نہیں کہتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نظر ثانی کا سکوپ اپیل جیسا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم نے پہلے ایک قانون کو معطل کیا، دوسرا معطل نہیں کر سکتے۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی اور ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔