اسلام آباد ہائیکورٹ نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت پاکستان بار کونسل کے نمائندے حسن پاشا روسٹرم پر آگئےاور چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا پاکستان بار کونسل کے پاس اصل آڈیو موجود ہے؟ اس پر حسن پاشا نے کہا کہ نہیں مائی لارڈ ، آڈیو ہمارے پاس بھی موجود نہیں ہے۔
حسن پاشا کے جواب پر جسٹس اطہر نے کہا کہ مطلب وہ آڈیو صرف انٹرنیٹ پر ہی موجود ہے، انٹرنیٹ پر موجود کیا سارے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں؟ جن کا اپنا کیس ہے انہیں اس پر کوئی اعتراض ہی نہیں، کیا بار کونسل یہ کہتی ہے وہ ڈویژن بینچ یہ معاملہ نہیں دیکھ سکتا؟
اس دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کے سامنے ابھی کہا گیا آڈیو جھوٹی نکلی، یہ عدالت بری ہو گی، پھر کہا گیا نہیں اس عدالت پر تو اعتبار ہے ، ہم ایک کیس کیلئے کس حد تک جائیں گے، یہ ٹرینڈ ختم ہونا چاہیے، کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک صاحب کی آڈیو پر ساری عدلیہ کمپرومائزڈ ہے، اس درخوست گزار میں اور رانا شمیم میں فرق کیا رہ گیا ہے؟ پیغام یہ دیا جا رہا ہے ہاتھ تو لگاؤ ہم سب ججوں کو گھر چھوڑ کر آئیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسےعدلیہ پراعتبار نہیں کھل کرخود آ کر یہاں کہے اِدھر اُدھر سے بات نہ کرے، درخواست گزار وکیل کہتے ہیں اصل آڈیو موجود ہی نہیں ، یہی بنیاد اس درخواست کو مسترد کر دینے کیلئے کافی ہے، پاکستانی عدلیہ کو کسی فارنزک کی بیساکھیاں نہیں چاہئیں۔
عدالت نے کہا کہ کیا سوشل میڈیا کی حوصلہ افزائی کریں کہ سچ جھوٹ جو کہیں ہم انکوائری کرتے رہیں گے؟ ایک کیس میں ایک معاملے پر کمیشن بنایا جائے تو باقی ایشوز پر کیوں نہیں؟
بعد ازاں عدالت نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔