وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اپنے پرانے اتحادیوں اور کچھ نئے سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں گزارا کیونکہ حکمران اتحاد آئندہ عام انتخابات کے وقت کے ساتھ ساتھ نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو انتخابی عمل کی نگرانی کرے گی۔
رپورٹ کے مطابق وفاق میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرقیادت حکمران اتحاد کے اہم اتحادی آصف علی زرداری نے وزیر اعظم سے لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران نگران سیٹ اپ سے متعلق معاملات پر بات چیت ہوئی، اس موقع پر عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے بعد دونوں نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک بالمشافہ ملاقات کی۔
ملاقات سے باخبر پارٹی ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریق ایک عبوری سیٹ اپ کے خواہشمند ہیں جو کسی ضرورت کے تحت طویل نہ ہو، اس مقصد کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا جھکاؤ ایک ایسے عبوری سیٹ اپ کی جانب ہے جو ٹیکنوکریٹس کے بجائے زیادہ تر سیاست دانوں پر مشتمل ہو۔
ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ملاقات کے بعد اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل نگران سیٹ اپ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں کچھ وقت کے لیے تاخیر ہو سکتی ہے، جس کے حق میں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی دونوں نہیں ہیں۔
ان کے بقول دبئی اور لاہور دونوں جگہوں پر ہونے والی ملاقاتوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ انتخابات میں کوئی بڑی تاخیر نہیں ہونی چاہیے، اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ اگر مرکز میں ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے تو بااختیار قوتیں اِس ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت اس کی مدت میں توسیع کی کوشش کر سکتی ہیں کہ عام انتخابات میں جانے سے پہلے معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف زرداری نے قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے چند روز قبل اسے تحلیل کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا تاکہ انتخابات نومبر 2023 میں کرائے جائیں۔
آئین کے تحت اگر قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر لیتی ہے تو 60 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے لیکن اگر اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو جاتی ہے، چاہے ایک دن پہلے ہی کیوں نہ ہو، تو نگران حکومت کو انتخابات کرانے کے لیے 90 دن کا وقت ملے گا۔
دونوں رہنماؤں نے آئی ایم ایف معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا جس نے ڈیفالٹ کو روکنے میں مدد کی، بظاہر دونوں قائدین کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ چونکہ ملک کو درپیش بڑے اقتصادی مسائل کو کسی حد تک حل کر لیا گیا ہے اس لیے اب انتخابات میں تاخیر کے لیے کوئی عذر نہیں رہ گیا۔