اسلام آباد (سی این پی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس میں ریمارکس دیے کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ، ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے۔
سابق وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ سزا معطلی کے تین گراؤنڈز ہیں، ایک تو شارٹ سینٹینس ہے، دوسرا کیس کے عدالتی اختیار کا معاملہ ہے، سیشن عدالت براہ راست الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی، عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے نمٹایا جانا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کی تعریف کے مطابق الیکشن کمیشن چیف اور دیگر اراکین پر مشتمل ہوتا ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی ملازم کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دے
اس کیس میں کمیشن کی جانب سے کوئی اتھرائزیشن نہیں ہے، یہ کیس سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے اتھرائز کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے اتھرائزیشن پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کے دستخط ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ڈیلی گیشن اور اتھرائزیشن قانون کے مطابق نہیں ہےجس پرسردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائی کورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کو بھیجی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، مجسٹریٹ سیشن کورٹ کو بھیجے گا، ہم سیشن کورٹ کی جانب سے ٹرائل کرنے کو تو چیلنج ہی نہیں کر رہے، ٹرائل سیشن کورٹ ہی کرے گی، لیکن براہ راست نہیں کر سکتی۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں رش کے باعث ایئر کنڈیشنرز نے کام کرنا چھوڑ دیا، گرمی کے باعث لطیف کھوسہ نے معاون وکیل کو قانونی نکات پڑھنے کے لیے بلا لیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے اے سی وینٹ کے سامنے سے وکلا کو ہٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اے سی کے وینٹ کے سامنے سے جگہ چھوڑ دیں، کچھ تو ہوا آئے گی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے میں خرابیاں ہی کافی ہیں کہ اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ کے اٹھائے گئے نکات کے جوابات حتمی فیصلے میں موجود ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہیں، ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے مکمل طور پر آپ کے احکامات کو نظر انداز کیا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست دی، عدالت نے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دے دیا، گواہان کی فہرست کا جائزہ لیے بغیر انہوں نے فہرست مسترد کردی، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ دینے سے نہیں روکا، جب ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہو تو ہمیشہ ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ کس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی، عدالت نے کہا وکیل دفاع گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس بنیاد پر ٹرائل عدالت نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں، گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں گواہان کو؟ میرے گواہ ہیں، میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟ میرا یہ بھی اعتراض ہے کہ شکایت 120 دن کے اندر فائل ہونی چاہیے تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ شکایت ٹائم بارڈ ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 920 دن بعد شکایت دائر کی گئی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 4 اگست کو آپ کا آرڈر آیا، آپ نے قابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا، 5 تاریخ کو میں نے آپ کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، خواجہ حارث کے کلرک کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا، خواجہ صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں۔
انہوں نے کہا کہ 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے تین سال کی سزا سنا دی، 12 بج کر 35 منٹ پر پتا چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی، میں کیس کے میرٹس پر نہیں جارہا، اس کی ضرورت بھی نہیں، شارٹ سینٹینس کی معطلی سے متعلق فیصلے جمع کرا دیے ہیں، آپ کہتے ہیں تو پڑھ بھی دیتا ہوں، میں نے تمام نکات پر فیصلوں کے حوالے جمع کرا دیے ہیں۔
اس کے ساتھ سردار لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوگئے، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل سے قبل وکیل سلمان اکرم راجا نے روسٹرم پر آکر مختلف قوانین کے حوالے دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل، سیشن کورٹ ہی کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن سیشن کورٹ کو مجسٹریٹ شکایت بھیجے گا، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی بالکل، قانون طریقہ کار کے مطابق ایسا ہی ہوگا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس شکایت میں جو سی آر پی سی کے تحت طریقہ کار ہے وہی اپنایا جائے گا، اس حوالے سے ہم نے درخواست بھی دائر کی تھی لیکن جج صاحب نے خارج کردی، اس کے خلاف ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فوجداری نظر ثانی کی درخواست دائر کی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ بیک کردیا، جج صاحب نے ہمیں سنے بغیر درخواست ایک بار پھر خارج کردی۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے روسٹرم پر آکر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ریکارڈ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو 5 اگست کو سزا سنائی گئی، 8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
امجد پرویز نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے تھے، انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ ڈویژن بینچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے، امجد پرویز نے کہا کہ ملزم 342 کے بیان میں کہتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے مانا کہ پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کردیا اب دفاع میں گواہ پیش کرنے چاہئیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فارم ’بی‘ پر تحریر کرنے کے لیے معلومات تو ملزم نے خود دینا ہوتی ہیں، اکاؤنٹینٹ، ٹیکس کنسلٹنٹ نے خود سے تو معلومات پُر نہیں کرنا ہوتیں، یہ مس ڈیکلیریشن کا کیس ہے، سب سے پہلے اس فارم بی کا کنسیپٹ خلیفہ راشد دوم حضرت عمر فاروقؓ نے متعارف کروایا تھا، حضرت عمرؓ نے قرار دیا کہ ارباب اختیار کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ اپیل، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190 کے تحت دائر کی گئی، یہ سیکشن صرف اپیل کا فورم بیان کر رہا ہے، اس سیکشن کے تحت حتمی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی، اپیل کی نوعیت، سماعت کے طریقہ کار سے متعلق الیکشن ایکٹ کے حصہ 7 میں پورا چیپٹر موجود ہے۔
امجد پرویز نے مختلف قانونی نکات کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اپیل سننے والی عدالت کو درخواست گزار، شکایت کنندہ اور حکومت کو بھی نوٹس کرنا ہوتا ہے، تاریخ میں سزا کے خلاف اپیل میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکومت کو نوٹس جاری نہ ہوئے ہوں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ملزم درخواست گزار ہیں، شکایت الیکشن کمیشن نے فائل کی، ریاست کو نوٹس کیوں کیے جائیں؟ امجد پرویز نے کہا کہ ملزم حکومت کی تحویل میں سزا کاٹ رہا ہے، الیکشن کمیشن کی تحویل میں نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تو مرکزی اپیل کا معاملہ نہیں ہے، یہ تو سزا معطلی کا معاملہ ہے، امجد پرویز نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس وجہ سے درخواست خارج کردیں، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس جاری ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے، حکومت کو نوٹس جاری کردیے جائیں تو حکومت آکر کیا کرے گی؟ امجد پرویز نے کہا کہ ملزم تو حکومت کی تحویل میں ہے نا، یہ قانون کا تقاضا ہے، قانون آپ کے سامنے ہے، سادہ زبان ہے، مختصر سزا پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے احکامات موجود ہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ ایک کیس میں ملزم کو ٹرائل کے بعد ڈھائی سال کی سزا سنائی گئی تھی، ملزم نے ہائی کورٹ میں شارٹ سینٹس کی بنیاد پر معطلی کی اپیل کی، ہائی کورٹ نے اس کی اپیل خارج کی، معاملہ سپریم کورٹ گیا۔
امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ قابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمات میں بھی سزا معطل نہیں ہوسکتی، 3 سال کی سزا معطلی حق نہیں، عدالت کے استحقاق پر منحصر ہے۔
امجد پرویز نے سپریم کورٹ، لاہور اور سندھ ہائی کورٹس کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ ابھی تک نافذ العمل ہے، بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی کی گئی، نہ ہی چیلنج ہوا، فیصلوں میں سزاؤں کی مدت کو تین کیٹیگریز میں بانٹا گیا ہے، پہلی کیٹیگری 3 سال سے کم سزا کی ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ دوسری کیٹیگری 3 سال سے زائد اور 7 سال سے کم سزا کی ہے، تیسری کیٹیگری سات سال سے زائد یا عمر قید کی ہے، فیصلوں کے مطابق سزا معطلی کے لیے سزا کا کچھ حصہ کاٹنا ضروری ہے، جو آپ کے سامنے اپیل ہے اس کو دائر ہوئے ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا، درخواست گزار کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ سزا دی گئی ہے، ایسا نہیں کہ سزا 14 سال تھی تو 3 سال دی گئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم آج کے لیے بس کرتے ہیں، کل دوبارہ سے شروع کریں گے، چیف جسٹس نے امجد پرویز سے استفسار کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت لگے گا؟ امجد پرویز نے کہا کہ 3 گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں گا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تین گھنٹے ضمانت کے کیس میں لگے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ کل جمعہ ہے سماعت نہ رکھیں، یہ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ چھٹی والے دن عدالت کھل گئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کل ڈویژن بینچ نہیں ہے لیکن ہم کیس سن لیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل بروز جمعہ ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔