عمران خان کی سزا معطلی کا فیصلہ محفوظ:کل منگل کو 11 بجے سنایا جائیگا،اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد(سی این پی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی سزا معطلی کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل(منگل کو )دن 11 بجے سنایا جائیگا

قبل ازیں توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سزا کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی

عمران خان کی جانب سے وکیل سردار لطیف کھوسہ جب کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے امجد پرویز عدالت میں پیش ہیں

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ کردیں گے

امجد پرویز نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل شروع کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی سزا معطلی کی مخالفت کی اور مختلف قوانین اور عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے راہول گاندھی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی کو دو سال سزا ہوئی تھی، راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دی تھی، راہول گاندھی کی سزا معطلی کی درخواست مسترد ہوئی۔

امجد پرویز نے کہا کہ میں مختصر حکم کی بنیاد پر سزا معطلی کی اپیل کی مخالفت نہیں کر رہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس کیے بغیر اپیل پر کارروائی نہیں کی جا سکتی، قانون بھی یہی کہتا ہے کہ حکومت کو نوٹس ضروری ہے، ایسے تمام مقدمات میں تین وکلا وکیل دفاع، وکیل استغاثہ اور حکومتی وکیل کی حاضری لگائی جاتی ہے،امجد پرویز نے مختلف قوانین اور فیصلوں کے حوالے دیئے، انہوں نے مو¿قف اپنایا کہ عمران خان کی سزا معطلی درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی عمران خان کے خلاف پرائیویٹ شکایت ہے، ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا، یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟ نیب کے مقدمات میں تو پبلک پراسیکیوٹر موجود نہیں ہوتا۔

امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹر موجود ہوتے ہیں جنہیں سنا جاتا ہے، نیب قانون میں پبلک پراسیکیوٹر کا ذکر ہی نہیں ہے، پبلک پراسیکیوٹر کی بات سی آر پی سی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری یہی درخواست ہے کہ حکومت کو نوٹس جاری کیا جائے، قانون میں شکایت کا لفظ ہی نہیں، ریاست کا لفظ ہے۔

امجد پرویز نے سیشن کورٹ کے براہ راست درخواست سننے کے نقطے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت کسی بھی جرم کا ٹرائل ہونا ہی سی آر پی سی کے تحت ہے، تقریباً 50 سالوں میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کی شکایت آج تک کسی مجسٹریٹ کے پاس نہیں گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجسٹریٹ کے پاس تو کسی شکایت پر آرڈر پاس کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے، مجسٹریٹ صرف اپنے دائر اختیار کی درخواست پر آرڈر جاری کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ شکایت فائل کرنے میں کوئی کوتاہی ہے بھی تو اس کا اثر ٹرائل پر نہیں پڑے گا؟ امجد پرویز نے کہا کہ جی میرا یہی نکتہ ہے کہ ٹرائل تو عدالت نے ہی کرنا ہے، چاہے مجسٹریٹ کے پاس فائل ہو یا براہ راست۔

امجد پرویز نے کہا کہ یہ عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ ہی نہیں ہے، یہ کہہ رہے ہیں کہ شکایت مجسٹریٹ سے ہوکر سیشن عدالت نہیں آئی، دائرہ اختیار تو سیشن کورٹ کا ہی ہے، ایک فیصلہ یہ پیش کردیں جس میں مجسٹریٹ سے ہوکر شکایت عدالت آئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے 14 فیصلوں کا حوالہ دیا ہے، اجازت دیں بریک کی تو میں دوائی کھا لوں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ 5 منٹ کی بریک دے دوں؟ امجد پرویز نے کہا کہ 15 منٹ کی بریک دے دیں جس کے بعد عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا۔
15 منٹ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز روسٹرم پر موجود تھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، کچھ فیصلوں کے حوالے دینا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک گھنٹہ اس دن کیا، دو گھنٹے آج لے گئے ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ میں کوئی ایسا سیکشن نہیں پڑھوں گا جو نیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بھی دو بار یہاں، اور ایک بار سپریم کورٹ میں دلائل دے چکے ہیں، انہوں نے الیکشن کمیشن اور سیشن جج کو ویلن بنایا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی وہاں مت جائیں، سزا معطلی پر ہی دلائل جاری رکھیں، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ دفاع کی جانب سے شکایت کی باقاعدہ اجازت کے حوالے سے اعتراض اٹھایا گیا ہے، ان کے مطابق باقاعدہ اجازت کے بغیر کمپلین قابل سماعت نہیں ہے، میں عدالت سے الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ پڑھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

امجد پرویز نے کہا کہ یہ اتھرائزیشن الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد دی گئی، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ دفتر جو بھی ضروری ہو کرے، الیکشن کمیشن نے کسی فرد کو تو ہدایت جاری نہیں کی، الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کو تو ہدایت جاری نہیں کی، وہ کیوں شکایت کرے؟

امجد پرویز نے کہا کہ سیکرٹری نے اتھرائزیشن میں لکھا کہ یہ شکایت الیکشن کمیشن کے فیصلے کی نظر میں فائل کی جارہی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ اب مزید کِس نکتے پر دلائل باقی ہیں؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ حقِ دفاع اور چار ماہ میں کمپلینٹ دائر کرنے کے نکات پر دلائل دینے ہیں، واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں بتاو¿ں گا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی نہیں کی، ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ ملزم کے وکیل عدالت میں پیش ہو کر دلائل دیں گے، میرے دلائل آج مکمل نہ ہو پانے کی ایک وجہ ہے ، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نہیں نہیں، آج ہی مکمل کریں گے۔

امجد پرویز نے کہا کہ خواجہ حارث کا بیان حلفی اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، مجھے بیان حلفی کی تصدیق شدہ کاپی نہیں مل سکی، میں کسی وکیل کے بیان حلفی کے جواب میں حلفیہ بیان دینے والا آخری شخص ہوں گا، آفس نے مجھے خواجہ حارث کے بیان حلفی کی مصدقہ کاپی فراہم نہیں کی۔

امجد پرویز نے کہا کہ میں آخری شخص ہوں گا جو اس پر کاو¿نٹر ایفی ڈیوٹ جمع کرائے، بیان حلفی کا سپریم کورٹ میں بھی تذکرہ ہوا مگر وہ آفس میں سی ایم کے ذریعے دائر نہیں ہوا، بیان حلفی ادھر ہی دوران سماعت کورٹ کو دیا گیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ امجد صاحب پانچ دس منٹ میں آپ دلائل مکمل کر لیں ، امجد پرویز نے کہا کہ میں نے عدالتی نظریں آپ کے سامنے رکھ دیں عدالت دیکھ لے ، ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف یہ کیس غلط ڈکلیئریشن کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات پبلک دستاویزات ہوتی ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کیخلاف اپیل پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہوگئے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں ان دلائل میں کچھ شامل نہیں کرنا چاہوں گا، امجد پرویز کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے دلائل مکمل کر لیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف حکومت کو نوٹس جاری کرنے سے متعلق تھوڑی معاونت کردیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کردیں نوٹس، کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ویسے قانونی طور پر نوٹس کرنے کا کوئی تقاضہ نہیں ہے، اس مرحلے پر کر نہیں سکتے، کرنا چاہیے بھی نہیں۔

اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا،بعد ازاں عدالتی عملے کی جانب سے کہاگیا ہے کہ کیس کا فیصلہ کل(منگل کو) کو سنایا جائیگا