بجلی چوری کرنے والے احتجاج کررہے ہیں،وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ

اسلام آباد(سی این پی)نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوے کی دہائی میں بجلی کی پیدوار کے لیے معاہدے ریاست اور معاشرے کے نقصان کو پیش نظر رکھتے بغیر کیے گئے جبکہ جہاں بجلی کے بل جلائے جا رہے تھے اسی شہر میں بجلی 500 میگاواٹ تک چوری ہو رہی ہے۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے ساتھ میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہے اور زحمت دینے کا مقصد آپ کے حوالے سے پوری قوم سے بات کرکے جو صورت حال ہے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن چیلنجنگ معاشی صورت حال میں یہ نگران حکومت آئین کے تسلسل کے لیے معرض وجود میں آئی ہے اور اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں جو بہترین شخصیات مل سکتی تھیں ان کو یکجا کیا گیا ہے تاکہ بہتر انداز میں مسائل سے نمٹا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں جو گوناگوں مسائل ہیں وہ دونوں معاشی اور سیکیورٹی محاذ پر چیلنجز ہیں، معاشی حوالے سے اگر مسائل کی نشان دہی درست ہوگی تو اقدامات سود مند ہوں گے اور حال ہی میں بجلی کے بلوں کے حوالے سے احتجاج دیکھا اور اس احتجاج کے ارد گرد سول سوسائٹی، میڈیا اور مختلف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تشویش تھی وہ بہت شدید ردعمل آیا، جس کا ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا کےذریعے پتا چلا۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے کوئی ذاتی ارادے یا منصوبے نہیں ہیں، جس کے تحت ہم گفتگو کر رہے ہیں لیکن جو دن حکومت میں گزرے ہیں اس میں ادراک کے عمل سے گزرے ہیں اور بحیثیت نگران وزیراعظم جو چیزیں میرے سامنے آرہی ہیں وہ معاشرے کے دوسرے کردار ہیں وہ بھی ان خیالات یا سرگرمیوں سے گزرتے ہیں یا ہم ایک مخصوص سیاسی، معاشی اور صحافتی کلچر کا شکار ہوگئے ہیں اور اس کلچر میں رہتے ہوئے ہماری گفتگو اسی کے حوالے سے ہے۔

کا کہنا تھا کہ معاشی حوالے سے ہمیں دو چیزوں کا سامنا ہے، جن میں بجلی کے بل ہیں، نوے کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ چیلنجنگ مسئلے کے طور پر ہوئی، جس کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیا اور بجلی کی پیدوار بڑھانے کے لیے کوشش کی اور یہ احساس کیے بغیر کہ ہم جو معاہدے کر رہے ہیں وہ ہمارے معاشرے اور ریاست کے لیے اتنے خوف ناک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیدوار کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں دو ڈھائی دہائیوں تک کیپسٹی سرچارج ادا کی چاہے پیدوار ہو یا نہ ہو لیکن ہمیں ادائیگی کرنا ہوگی۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ بلوں کی وصولی کا نظام 30 سے 40 برسوں میں اتنا ناقص بنایا، پیدوار، فراہمی اور وصولی تینوں نظام ناقص ہیں، ہائیڈل کی پیداوار نہیں بڑھی، منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی بڑا پانی کا ذخیرہ ہم نہیں کر پائے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں بجلی کے بلوں پر احتجاج ہو رہا تھا، ایک شہر میں بل جلائے جا رہے ہیں اور احتجاج ہو رہا ہے اور اسی شہر میں 200، 300 اور 500 میگا واٹ کی چوری ہو رہی ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا کام الیکشن کمیشن سے تعاون کرنا ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق جتنا ممکن ہو سکے شفاف انداز میں غیرجانب دار انتخابات کرواکر ہم رخصت ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہمیں لوگوں کی مدد بھی کرنی ہے اور تسلی بھی دینی ہے۔

بجلی کے بل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ضرور ہے اس کو ٹھیک کیا جا رہا ہے، دو ماہ کا بل بڑھا ہے، اس کی نگرانی اور کیلکولیشن کی ہے اور حل کرنے کے لیے سب سے زیادہ اجلاس کیے ہیں، پورے توانائی شعبے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ہم نے سخت بات بھی کی اور حل بھی دے رہے ہیں اور بتایا کہ بڑی پریزینٹیشن میں وقت ضائع نہ کریں بلکہ مؤثر اقدامات کریں لیکن اب تک متعلقہ بین الاقوامی مالی اداروں کے ساتھ مذاکرات میں ہیں اور جلد ہی باہر نکلے بغیر حل نکال لیں گے اور جلد مواقع مل جائیں گے اور ہم اس کا اعلان کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسی بھی کوئی بھی فیصلہ نہیں دیتی ہے تو جو قانون بنا ہے وہ قابل عمل قانون ہے اور اس وقت الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دینے کا ادارہ ہے اگر سپریم کورٹ اس کے علاوہ کوئی فیصلہ کرے تو پھر دوسری صورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس کو اچھا سمجھے یا نہیں اس وقت قانون یہی ہے، ہم کوئی پوزیشن نہیں لے رہے ہیں لیکن جو قانون ہے اس کی بات کر رہے ہیں، ابھی یہی بات ہے الیکشن کمیشن ہمیں جو کہے گا ہم وہی کریں گے۔

سرکاری عہدیداروں کو مفت بجلی کی فراہمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فوج سے پوچھا کہ کتنی بجلی مفت ملتی ہے تو جواب ملا کہ ایک یونٹ بھی مفت بجلی نہیں ملتی اور وہ خرچ ہونے والی بجلی کا بل ادا کرتے ہیں اور وہ ان کو دیے گئے بجٹ سے ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے حوالے سے سوشل میڈیا میں جس طرح کی باتیں آ رہی ہیں وہ بھی ایسا نہیں ہے، ہاں واپڈا کے ملازمین کے حوالے سے بات درست ہے، ایک گریڈ سے 16 گریڈ کے عہدیداروں کو مختلف بریکٹ میں رکھا گیا ہے اور 17 سے اوپر گریڈ کو زیادہ ریلیف دیا گیا ہے اور بعض افسران کو بے تحاشا بجلی کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلایا ہے اور پالیسی پر بات کر رہے ہیں اور48 گھنٹوں میں ایک پالیسی کے ساتھ سامنے آئیں گے، جس میں دونوں طرف کی دلیل شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک دلیل یہ آرہی ہے واپڈا کے ملازمین بجلی کی پیداوار میں حصہ ڈال رہے ہیں تو ان کو رعایت دی جائے، ہمارا نکتہ نظر ہے کہ ایک سے 16 گریڈ کے افسران انہی لوگوں میں شامل ہیں جو آج احتجاج کر رہے ہیں، اگر ہم نے اسی سیکشن کو ہدف بنانا ہے تو اس سیکشن کو مطمئن کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سے 16 تک ان کی سیلنگ کا بھی پتا ہے، ہم ان کو چھیڑنے کا نہیں سوچ رہے ہیں، جو 17 سے 22 گریڈ تک ہیں ان کے لیے مفت کے بجائے مونیٹائز کرکے یوٹیلیٹی کے زمرے میں ایک مخصوص رقم دی جائے اور دوسری تجویز ہے کہ جو سہولت ہے اس میں 50 فیصد کمی کردی جائے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم مؤثر پالیسی بنا رہے ہیں اور پالیسی سامنے لائیں گے۔