لاہور ہائیکورٹ نے پاسپورٹ بلیک لِسٹ کرنے کا قانون کالعدم کر دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لِسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں، نواز شریف، شہباز شریف کے کیسز پر اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے حوالے بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے شیخ شان الہٰی اور سید انور شاہ کی پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی اور بلیک لسٹ مفرور ملزم کے پاسپورٹ کی عدم تجدید کیخلاف درخواست پر فیصلہ جاری کیا ۔
فیصلے میں میں کہا گیا کہ آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے، خدشات کی بنیاد پر ریاستی مداخلت کیخلاف بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ ترجیح ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نےبلیک لسٹ قانون ختم کرنے پر اس کےسنگین اثرات کاخدشہ ظاہر کیا ہے،مگر یہ عدالت کہتی ہے کہ قانون میں اگر کوئی خامی ہو تو پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ پاسپورٹ ایکٹ 1974ء، ای سی ایل آرڈیننس 1981ء بیرون ملک سفر سے متعلق قوانین ہیں، بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ، حکومت کسی بھی شہری کاپاسپورٹ منسوخ کرنے سے 2 ہفتے قبل اظہار وجوہ کا نوٹس دینے کی پابند ہے۔
فیصلے میں عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت بغیر نوٹس صرف ایسے شہری کا پاسپورٹ منسوخ کرے جو ملکی مفاد کیخلاف کام کر رہا ہو، غیر ملکی سرمایہ کاری، نامور بینکوں اور کمپنیوں سے فراڈ کے ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جا سکتے ہیں۔
عدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت نے درخواستگزاروں کو نہ تو پاسپورٹ واپس کرنے کا کہا اور نہ ہی انکا پاسپورٹ منسوخ کیا، حکومت نے درخواستگزاروں کیخلاف پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل کے پیرا 51 کے تحت کارروائی کی، یہ پیرا قانون ساز پالیسی کیخلاف ہے، جبکہ پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں۔
ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہاکہ وفاقی حکومت پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت صرف پاسپورٹ قبضے میں لے سکتی یا منسوخ کر سکتی ہے، پاسپورٹ ایکٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شہری کو بلیک لسٹ کیا جائے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ، ہائیکورٹ، بینکنگ کورٹ کےعلاوہ کسی عدالت کو نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دینے کا اختیار نہیں،کسی فرد کیخلاف جرم میں ملوث شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کو نہیں، اس کے علاوہ نجی، دیوانی کیسز میں بھی کسی شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس نہیں۔
عدالت نے کہاکہ پاسپورٹ منسوخ کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے بھی عدالتی نظر ثانی سے مشروط ہیں، وفاقی حکومت مکینکل طریقے سے کسی کا پاسپورٹ منسوخ نہیں کر سکتی، گڈ گورننس کیلئے حکومت رولز بنانے کی مجاز ہے مگر ایسے رولز آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت ہر شہری جہاں کہیں بھی ہو اسے قانون کے مطابق تحفظ حاصل ہے، امن، سیکیورٹی اور معاشرے کے مفادات کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں، ریاست اور بنیادی حقوق کے معاملے پر توازن برقرار رکھنا لازم و ملزوم ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے مزید کہاکہ 2004ء کے شہباز شریف کیس میں کسی بھی شہری کو وطن واپس آنے سے نہ روکنے کا کہا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مسلم لیگ نواز کیس، 2007ء میں سپریم کورٹ آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کو ریاستی مداخلت پر ترجیح دے چکی ہے، بنیادی آئینی حقوق آئین کے دل اور روح ہوتے ہیں، سفر کرنے کا حق عالمی طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جا چکا ہے،کسی بھی شہری کا سفر کرنا اور بیرون ملک جانا بنیادی حقوق کے آرٹیکل کاجز ہے۔