اسلام آباد(سی این پی)سپریم کورٹ نے ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد محفوظ فیصلہ سنا دیاگیا، 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے مسترد کردی گئیں،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نےسینئر ججز جسٹس طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کے ساتھ کیس کا فیصلہ سنایا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے سب سے پہلے سب کا شکریہ ادا کیا اور پی ٹی وی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس نے ہمارے پاور پراجیکٹ کو کامیاب بنایا۔چیف جسٹس نے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ تھوڑا ٹیکنیکل تھا اسی لیے وقت لگا اور کہا کہ فیصلے کی تفصیلات بعد میں جاری کردی جائیں گی اور آج کا حکم نامہ ویب سائٹ پر جاری کردیا جائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پیرا ٹو اور تھری 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے منظور کیا گیا ہے، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے مخالفت کی۔مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 برقرار رہے گا جو اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کے مطابق ہے اور درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیراگراف ٹو 6 کے مقابلے میں 9 سے ایکٹ کے سیکشن 5 کی ذیلی شق ون، جو اپیل کے حق سے متعلق ہے، کو برقرار رکھا ہے اور جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس شاہد وحید نے فیصلے کی مخالفت کی۔
قبل ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی گئی جسے براہ راست نشر کیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم نے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں، ہائی لائٹ کریں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 19 اے میں جو یہی اصطلاح استعمال ہوئی وہ باقیوں سے الگ ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 19(اے) سے اخذ حق قانون سازی سے ہی بنا، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جس بنیاد پر دلائل دیے وہی دیتے تو یہ مسائل نہ ہوتے، کئی بار سیدھا ہاں یا نہ میں جواب دینا آسان نہیں ہوتا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں رولز کو قانون کا درجہ ہے مگر آرٹیکل 191 کے تحت یہ قانون نہیں، جب ہم قانون کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایکٹ آف پارلیمنٹ سے زیادہ دیکھنا ہو گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز بن جانے کے بعد آرٹیکل 191میں درج قانون کی اصطلاح ختم ہو جاتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 میں پارلیمنٹ پر ترامیم کی کوئی پابندی نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے بنائے گئے رولز میں پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے پرکوئی پابندی نہیں؟ کیا پھر پارلیمنٹ کے بنائے قانون میں سپریم کورٹ کی جانب سے ترامیم پر بھی کوئی پابندی نہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون دینے والا ادارہ پارلیمنٹ ہے، زیرالتوا کیسز کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ گئی تو شاید ایک اور قانون کی ضرورت پڑے، انہوں نے 5 سال بعد عوام میں جانا ہوتا ہے۔جسٹس مظاہر علی نے استفسار کیا کہ آپ ریکارڈ لائے ہیں؟ پارلیمنٹ میں کتنے لوگوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر بحث کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ادارے کو دوسرے کی عزت کرنی چاہیے، میرا خیال ہے پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی عزت کی، پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم اور اٹھا سکتی تھی جو نہیں اٹھایا، میرا خیال ہے وہ قدم اس لیے نہیں اٹھایا گیا کہ پارلیمنٹ نے ہم پر اعتماد کیا، اب ہم دیکھیں شاید اس قانون کے تحت مزید رولز بنانے پڑیں۔ہمیں اس معاملے کا اسکوپ بڑھانا نہیں چاہیے، پارلیمان ہماری دشمن نہیں، نہ پارلیمان ہمیں دشمن سمجھتی ہے، ہم دونوں کو ساتھ چلا سکتے ہیں، ایک ادارے کو دوسرے سے لڑانا نہیں چاہیے، ایک بار ہمیں ایک دوسرے کو کہہ لینے دیں آپ نے ٹھیک کیا ہے، دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے، ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت بہت سے مسائل ہیں، 40 سال سے قانون سے وابستگی ہے، کچھ غیر آئینی ہوا تو ہم دیکھ لیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر رولز بھی قانون ہیں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی تو کیا یہ 2 قوانین میں ٹکراؤ نہیں ہوگا؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمان یہ قانون بنائے کہ جیل اپیلیں دائر ہوتے ہی مقرر ہوں گی تو یہ سپریم کورٹ رولز سے بالا ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پر عملدرآمد کے لیے ہی رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر نوآبادیاتی نظام پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ ہے؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نوآبادیاتی قوانین پر انحصار کر کے ہی فیلڈ مارشل ایوب خان نے آئین دیا، ماسٹر آف روسٹر کمیٹی وہی کام کرے گی جو چیف جسٹس کرتا ہے، ایک جج کے ہاتھ میں اختیار نہیں دینا تو 3 کے کیوں؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ 14ججز کو ایک جج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا تو 12 کو 3 پر کیسے چھوڑا جائے؟ اگر ماضی میں کسی چیف جسٹس نے اختیار فل کورٹ کو نہیں دیا تو آپ دے دیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اپنا دائرہ اختیار بڑھا سکتی ہے؟ اگر پارلیمنٹ نہیں بڑھا سکتی تو کیا سپریم کورٹ بڑھا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ حالیہ مثالیں ہیں جب بینچ میں مزید ججوں کو شامل کیا گیا، نیا ایسا دائرہ اختیار اخذ کیاگیا جو آئین میں نہیں تھا، یہ حساس معاملہ ہے آپ شاید اس پر بات نہ کرنا چاہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ بات ضرور کروں گا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے میں نے جو سوال کیا وہ آپ کو بالکل پسند نہیں آیا۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم ایک دوسرے ادارے کے اختیار پر مین میخ نکال رہے ہیں، یہاں اس سپریم کورٹ نے ایسا کیا جو اس کا اختیار تھا ہی نہیں، ایک بنیچ نے فیصلہ کیا دوسرے نے اس پر اپنا فیصلہ دے دیا، وہ تو نظر ثانی کا دائرہ اختیار بھی نہیں تھا، آپ شاید اس طرف نہیں جانا چاہتے کیونکہ آپ نے روز سپریم کورٹ آنا ہے، انگلی اٹھانی ہے تو پہلے اپنے پر اٹھائیں نا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس کارنیلئس اپنے فیصلوں میں اسلام کی بات کرتے تھے، ہم کہتے ہیں نہیں ہمیں ملکہ کی طرف ہی جانا ہے، اٹارنی جنرل آپ پاکستان کے اٹارنی جنرل ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت اور پارلیمان میں فرق ہوتا ہے، یہاں بینچ ادھر ادھر کر کے فیصلے کیے جاتے رہے وہ ٹھیک ہے؟ جج کو روکا بھی جاتا رہا کہ آپ فلاں کیس نہیں سن سکتے، عابد زبیری کے لیے بھی سوال چھوڑ رہا ہوں وہ اس پر بات کریں نا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں خاموشی سے بیٹھا سن رہا تھا، اتنا نہ مجبور کریں کہ بولنا پڑے اب بول دیا ہے، کیا سپریم کورٹ میں بینچ ادھر ادھر کر کے فیصلے بدلنا ٹھیک تھا؟ میں یہ سوال چھوڑ رہا ہوں اس کو ایڈریس کرنا ہے یا نہیں آپ کی مرضی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو تو اپنے دائرہ اختیار میں توسیع پر خوش ہونا چاہیے، اگر ایک لفظ کی 2 تشریحات ہوں گی تو اس پر اصول کیا ہے کہ کون سی تشریح اپنائی جائے گی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 184 اور 185 میں سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی چاہتے ہیں باریکیوں میں الجھائے رکھا جائے موٹی بات نہ کریں، ملک نے آگے بھی بڑھنا ہے، ہم غلطی کریں تو کوئی بتانے کی بھی مجال نہ کرے دوسرا کرے تو ہم سرزنش کریں، آپ اٹارنی جنرل برائے پاکستان ہیں رکن پارلیمان نہیں جو ان کا دفاع کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز کے تحت اپنا اختیار بڑھا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اس کا اختیار رولز سے نہیں بڑھایا جا سکتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا، آپ کتنا وقت اور لیں گے؟ اگر زیادہ وقت چاہیے تو ہم کل رکھ سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آدھا گھنٹہ لوں گا، آج ہی دلائل مکمل کر لوں گا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر ہم ڈھائی بجے تک واپس آتے ہیں۔دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، وفقے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے 184 (3) کے تحت مقدمات اور ان کے نتائج کی تفصیل بیان کی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیل مل کا نقصان 30 جون 2022 تک اب تک 206 ارب روپے ہو چکا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے ایکشن سے یہ سب ہوا؟جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے خلاف چارج شیٹ نہیں ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم سچ سننے سے ڈرتے کیوں ہیں؟
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ آپ اس چارج شیٹ سے چاہتے کیا ہیں، آپ ہم سے نظریہ ضرورت کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی کہلوانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم تنقید سننے سے گھبراتے کیوں ہیں، آپ مجھے آئینہ دکھائیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اختلاف ہوا تو ہم فیصلے میں لکھ لیں گے، دلائل کی حد تک تو اٹارنی جنرل کو کہنے دیں۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل یہ کوئی ڈیبیٹ سوسائٹی نہیں، نہ ہم آپ سے لیکچر سننے بیٹھے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال ہونا نہیں چاہیے، جج سے زیادہ عرصہ وکیل رہا ہوں، ججوں کو اچھا لگے یا برا وکیل اپنے مطابق دلائل جاری رکھتا ہے۔جسٹس یحیٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اپنے دلائل جاری رکھیں، سوالات کے جوابات آخر میں دے دیجیے گا۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق پارلیمنٹ کا اختیار آرٹیکل 191 اور انٹری 58 سے نکلتا ہے۔جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ ایکٹ میں آرٹیکل 184 ون کی اپیل کیوں نہیں دی گئی صرف 184/3 کی کیوں دی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اپیل کے ذریعے اختیار قانون سازی سے بڑھا رہے ہیں، اس قانون سازی کو آئین میں سپورٹ حاصل نہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ایک بار اگر سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا جائے تو ایکٹ ختم نہیں کیا جا سکتا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کا دائرہ پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ کا اختیار بڑھانے کے لیے پارلیمنٹ کی کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 212 عدالتوں سے متعلق قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی، ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔سماعت کے دوران ججوں کی جانب سے سوالات کا سلسلہ جاری رہا جسٹس شاہد وحید نے پوچھا کیا آپ مولوی تمیز الدین سے حدیبیہ تک سپریم کورٹ کو چارج شیٹ کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے ایک موقع پر اٹارنی جنرل کی دلیل پر کہا کہ میں ’پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ’ سے زیادہ متفق نہیں، کیا یہ اصطلاح کوئی آئینی یا قانونی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت جن کی نظرثانی ہو چکی وہ بھی دوبارہ اپیل میں آجائیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ٹرائبل ایریاز ختم کرکے ہائی کورٹ کا اختیار دیا گیا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دائرہ اختیار بڑھانے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی جانب سے جواب دینا اور عدالت کا جواب سے متفق ہونا مختلف چیزیں ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش ہے کہ اکثریت کو متفق کروں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس ایکٹ میں اس کے اطلاق سے متعلق کیا کہا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن ٹو کے مطابق اس کا اطلاق ماضی سے ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ ایکٹ کا اطلاق پہلے ہو چکے فیصلوں پر کیسے ہو گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی معاملات تو ایسے ہیں جو اب زندہ مسائل کے طور پر باقی موجود ہی نہیں۔اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اطلاق قانون بننے کے دن سے ہوگا یا ماضی سے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق اس کے اطلاق کی کوئی حد نہیں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ظاہری طور پر آپ کی دلیل مان لیں تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے کئی اپیلوں کا حق دے سکتی ہے، پارلیمنٹ نے ایک اپیل دی ہے تو دوسری اور تیسری اپیل کیوں نہیں دے سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کل کو یہ ہوا تو عدالت دیکھ لے گی جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میرا خیال ہے اس کا جواب اٹارنی جنرل کو دینا چاہیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر آپ آرٹیکل 185 ٹو پڑھ لیں تو شاید جواب مل جائے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیصلہ اکثریت سے آیا، نظر ثانی کو اقلیتی بینچ کے اراکین نے بھی مسترد کیا، وجہ یہ تھی کہ اس وقت نظرثانی کا دائرہ اختیار ہی کم تھا، میرے خیال میں ایسی صورت میں اپیل کا راستہ بند نہیں ہوجاتا،جسٹس مظاہر اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ وہ ایک بالکل مختلف معاملہ تھا کیونکہ پہلا فیصلہ ہائی کورٹ سے آیا تھا، سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل آئی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں میں صرف ایک صورت حال بتا رہا ہوں، میرا خیال ہے ان مقدمات کا حوالہ نہ دیں جو عدالت کے سامنے دوبارہ آ سکتے ہیں۔جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اس نکتے پر کیا کہیں گے کہ اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین میں واضح ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 185 میں کیا پارلیمان تیسری اور چوتھی اپیل کا حق دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فی الحال تو پہلی اپیل کا حق دیا گیا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بات اپیل کے نمبر کی نہیں اصول کی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میرا سوال بہت سادہ ہے جس کا جواب نہیں ملا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انٹری 55 اپنے آپ میں پارلیمنٹ کے لیے دائرہ کار بڑھانے کا اختیار بھی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو کام جبر سے ہوتا ہے اسے تو ہم مان لیتے ہیں، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا تو اسلام میں کوئی تصور نہیں، جابر جو کام کر دے اس پر تو پوری اسلامی مملکت خاموش رہے، یہاں سپریم کورٹ سے کوئی اختیار لیا نہیں بلکہ دیا گیا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بات آئینی ترمیم کی ہو تو وہ دو تہائی اکثریت کے بغیر ممکن نہیں، یہاں آرٹیکل 191 میں تو قانون کی بھی بات ہے دروازہ کھلا چھوڑا ہے۔اس کے بعد اٹارنی جنرل اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
درخواست گزار مدثر حسن جورا کے وکیل حسن عرفان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے جوابی دلائل دیے۔حسن عرفان نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ممکن نہیں، عوام پارلیمان اور حکومت کی نیت ایک جیسی ممکن نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کے مطابق عوام کی نمائندگی منتخب نمائندے کریں گے۔وکیل حسن عرفان نے کہا کہ دو تہائی اکثریت سے ہی آئین میں ترمیم ممکن ہے، قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ کمیٹی کتنے عرصے میں مقدمات مقرر کرے گی، اسی کے ساتھ حسن عرفان کے دلائل مکمل ہوگئے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری عدالتیں ماضی میں مانتی رہی ہیں، امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے میں عدالت کے اپیل اور آئینی دائرہ اختیار پر بحث ہوئی تھی۔عابد زبیری نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت سے متعلق اٹارنی جنرل کے دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں، وفاقی شرعی عدالت بناتے وقت اعلیٰ عدالتوں سے اختیار لے کر انصاف کا متوازی نظام بنایا گیا۔بعدازاں عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جس کے ساڑھے چھ بجے سنایا گیا ،سپریم کورٹ نے سرپم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں 10-5 سے مسترد کر دیں۔