بحریہ ٹاﺅن کیس:عدالتی فیصلے پر عملدرآمد یا نیب ریفرنس ،ایک راستہ چن لیں،توہین عدالت کا آپشن بھی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آبا د(سی این پی)سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بحریہ ٹاو¿ن کا مو¿قف ہونا چاہیے عدالتی فیصلے پر عمل کرائیں، عدالت کا بحریہ ٹاون کراچی کے لیے رقم کے تعین کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے، کیا آپ عدالت سے چاہتے ہیں زمین نہ دینے پر توہینِ عدالت کی کارروائی کرے؟ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اب ایسا نہیں چلے گا،بحریہ ٹاﺅن نےسپریم کورٹ فیصلے پرعملدرآمد کیاہے یا نہیں؟سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کی متفرق درخواست ہے کیا؟وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ ایک متفرق درخواست دائر کی تھی دوسری میں اضافی دستاویزات جمع کرائے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈھائی سال تک یہ کیس کیوں نہ لگا۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواستیں عدالت نے لگانی ہوتی ہیں وکیل نے نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم درخواستیں ڈھائی سال تک مقرر نہ ہونے پر کارروائی کریں۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں اس پر کچھ نہیں کہوں گا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ آفیسر آف کورٹ ہیں،ایک فیصلہ پر عمل نہیں ہورہا تھا،آپ اپنی درخواستیں مقرر کروانے عدالت بھی نہیں آئے،ہم اندورنی طور پر بھی دیکھیں گے کہ درخواستیں مقرر نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے،آپ بتائیں آپ سپریم کورٹ کا کون سا حکم تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کا 2018 کا فیصلہ پڑھنا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ فیصلے پر عملدرآمد مانگیں یا توہین عدالت کا موقف لیں۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ فیصلے پر یکطرفہ عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ آپ ہماری بات سن ہی نہیں رہے،ہم توکوئی دروازہ کھول لیں توہین کا کھولیں یا نظرثانی کا کھولیں۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ تھا اس میں سے دروازہ کھلےگا،مخالف فریق نے اپنے حصہ کا معاہدے کے تحت کام نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر ہم توہین عدالت کا دروازہ کھول دیتے ہیں،ہم آپ کو آپشن دے رہے ہیں اور آپ کوئی نہیں لے رہے،آپ ہمارے سامنے بےیارو مددگار کھڑے ہیں۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مجھے کوئی ایک آپشن لینے کیلئے وقت دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ڈھائی سال کے بعد اور بھی وقت چاہیے،اب ایسا نہیں چلے گا،معاملہ اب ہمارے پاس آگیا ہے بتائیں بحریہ ٹاو¿ن نے ادائیگی کر دی یا نہیں؟کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کر لیا؟۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ جب تک دوسرا فریق عمل نہیں کرتا ہم نہیں کر سکتے،65 ارب روپے ادا کر چکے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ بتائیں ٹوٹل اقساط میں سے کتنی ادا کی گئیں۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں آپ کو چارٹ پیش کردوں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آخری قسط کب ادا کی گئی؟وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ آخری قسط 2022 میں ادا کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کسی ریونیو آفیسر نے خط لکھا کہ ان کے پاس زمین نہیں،آپ اس خط کو ٹوکری میں پھینک دیں،آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی درخواست لے آئیں،جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو بحریہ ٹاو¿ن کی نمائندگی کون کر رہا تھا؟وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اس وقت وکیل علی ظفر تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک اور نام بھی لکھا ہوا ہے۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اعتزاز احسن بھی وکیل تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تو کیا ملک کے دو بڑے وکیلوں کو فیصلہ سمجھ نہیں آیا تھا۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ قانونی طور پر بحریہ ٹاو¿ن کو 16896 ایکڑ زمین الاٹ ہونی تھی لیکن صرف 11 ہزار ایکڑ ہوئی، بحریہ ٹاو¿ن کیس میں فیصلے کی تعمیل کے لیے عملدرآمد بینچ بنایا گیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ فیصلہ پورا نہیں پڑھ رہے۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر فیصلے پر عمل نہ ہوا تو نیب ریفرنسز دائر کرے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس راستہ یہ ہی ہے کہ نیب ریفرنس دائر کرے،ہم اب سپریم کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کیسے کریں؟۔ژیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس وقت ایک بات پر متفق ہوئے اب کہتے ہیں عمل نہیں کرنا،وہ خط کہاں ہے جس میں حکومت نے آپ سے کہا کہ وہ زمین نہیں لے سکتے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی توجسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میں پھر بتا دیتا ہوں کہ اصل اسٹیک ہولڈرز سندھ کی عوام ہے،کیا ہم سندھ کی عوام کو ہار جانے دیں؟چین نے نئے بیلٹ اینڈ روڈ 8 نکاتی ایکشن پلان کا اعلان کر دیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نقشہ سے دکھائیں کون سی زمین اب دستیاب نہیں،آپ ہر چیز زبانی بتا رہے ہیں،ہمیں نہیں دیکھایا گیا جس زمین کا ہم سے وعدہ کیا گیا،،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ کے بعد ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے 16 ہزار ایکٹر کا پلان منظور کرنا تھا،آپ ہمیں وہ لے آوٹ پلان دیکھائیں جو منظور کروایا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ا،پ نے قانون کے مطابق منظوری لی یا نہیں یہ بتائیں۔چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے نہیں چلے گا کہ میں ہر بات پر میں بتا دونگا۔
وکیل بحریہ ٹاو¿ن نے کہا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی زمین نہیں دے رہی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر آپ کام کیسے کر رہیں ہیں؟اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ بتا دونگا تو پھر ا?پ کی درخواستیں خارج ہو جائیں گی،آپ کے کلائنٹ کدھر ہیں ان سے پوچھیں،اتنے اہم کیس پر آپ کے کلائنٹ کیوں نہیں آئے ؟۔

سپریم کورٹ نے برطانیہ سے ریکور رقم ادائیگیوں میں ایڈجسٹ کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بحریہ ٹاو?ن نے جو رقوم جمع کرائیں وہ آئیں کہاں سے؟ کیا یہ درست ہے بیرون ملک ضبط رقم بھی سپریم کورٹ جمع کرائی گئی؟۔وکیل بحریہ ٹاﺅن نے کہا کہ وہ سب ایک معاہدے سے ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ وہ معاہدہ پیش کر دیں۔وکیل بحریہ ٹاﺅن نے کہا کہ اس معاملے پر نوٹس نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر ہم نوٹس کر دیتے ہیں۔وکیل بحریہ ٹاﺅن نے کہا کہ ادائیگیاں شئیر ہولڈرز نے کی تھیں،اجازت دیں پہلے میں ہدایات لوں پھر اس پر آگاہ کروں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیاآپ بحریہ ٹاو?ن کے مالک کے بھی وکیل ہیں،ہم فریقین کو نوٹس کر دیتے ہیں اس معاملے پر بھی،ہو سکتا ہے آپ کا بھلا ہو جائے آپ اس معاملے پر بھی وکیل کر لیں۔

وکیل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے منظوری دی یانہیں اسکا مجھے علم نہیں۔وکیل بحریہ ٹاﺅن نے کہا کہ منظوری کا سوال پہلی بار سامنے آیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تھانہ اور پٹواری کلچر کو ختم کرنا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ فاروق ایچ نائیک یہ الارمنگ صورت حال ہے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے نہ اس فیصلے پر عمل ہوا نہ قانون پر عمل ہوا، ابھی تک سندھ حکومت کو معلوم ہی نہیں کوئی ایکشن لیا گیا یا نہیں، کیا حکومت سندھ،سندھ کی عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے، یہ بتائیں اپ نے کتنی جگھیان گرائیں ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئندہ سماعت پر مکمل تفصیلات فراہم کرونگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نائیک صاحب یہ تصدیق کرلیججے گا کہ ملیر ڈویلپمنٹ نے زمین سے انکار کیا،پہلے زمین دینے کا کہا اب انکار کیسے کر سکتے ہیں؟۔بنیادی سوال ہمارے وہیں کھڑے ہیں سوال ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے بھی کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حوالے نہ دیں پاکستان کا بتائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی بار عملدرآمد بینچز بنتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے عامر رحمٰن سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ تو ہر حکومت کے دور میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل رہے ہیں، آپ اپنے تجربے سے بتائیں کب کب عملدرآمد بینچز بنتے رہے ہیں، جو بینچ حکم دیتا ہے وہی اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کرا سکتا؟ وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عمل درآمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین کرنا غیرآئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے آپ کی نظرِثانی اپیل نہیں ہے، عملدرآمد بینچ نے آپ کی رضامندی سے آرڈر پاس کیا۔وکیل نے کہا کہ ایم ڈی اے نے کل اراضی میں سے 5 ہزار ایکڑ زمین دینے سے انکار کر دیا ہے، اتھارٹی کہتی ہے پبلک زمین بحریہ ٹاو¿ن کو نہیں دی جا سکتی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ یہ بتائیں کس اختیار کے تحت یہ عدالت بیٹھی ہے؟وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 184 تین میں کیس سن رہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بحریہ ٹاو¿ن کا مو¿قف ہونا چاہیے عدالتی فیصلے پر عمل کرائیں، عدالت کا بحریہ ٹاو¿ن کراچی کے لیے رقم کے تعین کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے، کیا آپ عدالت سے چاہتے ہیں زمین نہ دینے پر توہینِ عدالت کی کارروائی کرے؟