اسلام آباد(سی این پی) نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ انتقام کا جذبہ نہیں رکھتے آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی اداروں اور جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ کہاں سے چھیڑوں فسانہ، کہاں تمام کروں، وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں، آپ آج کئی برسوں کے بعد ملاقات ہو رہی ہے لیکن آپ سے میرا پیار کا رشتہ قائم و دائم ہے، اس رشتے میں کوئی فرق نہیں آیا۔پیار محبت اور خلوص جو آپ کے چہروں اور آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں، مجھے اس پر ناز ہے، یہ میرا اور آپ کا رشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور نہ آپ نے کبھی دھوکا دیا اور نہ ہی نواز شریف نے دھوکا دیا، جب بھی موقع ملا بڑے خلوص سے دن رات ایک کرکے پاکستان کے عوام کے مسائل حل کیے۔نواز شریف نے کہا کہ جب بھی موقع ملا قربانی سے دریغ نہیں کیا، جیلوں میں مجھے ڈالا گیا، ملک بدر کیا گیا، جعلی کیسز میرے خلاف، شہباز شریف، مریم نواز اور یہاں بیٹھے سب لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے لیکن کسی نے مسلم لیگ کا جھنڈا ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔انہوں نے کہا کہ وہ کون ہے جو ہر چند سال بعد نواز شریف کو اپنے پیاروں اور قوم سے جدا کرتا ہے، ہم تو پاکستان کی تعمیر کرنے والوں میں ہیں، ہم نے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنایا، ہم نے اللہ کے فضل سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کی، لوڈشیڈنگ شروع نہیں کی، 2013 میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی، 18، 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، یہ ایک عذاب تھا اور ہم نے اس کو ختم کیا، بجلی نواز شریف نے مہنگی نہیں کی، نواز شریف نے بجلی بنائی اور سستے داموں عوام تک پہنچایا۔
نواز شریف نے کہا کہ میں بل ساتھ لے کر آیا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں، آپ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں بھی آپ سے اتنی محبت کرتا ہوں، آج آپ اس محبت کو دیکھ کر میں اپنے سارے دکھ درد بھی بھول گیا، میں یاد بھی نہیں کرنا چاہتا لیکن کچھ دکھ درد ایسے ہوتے ہیں جو انسان بھلا تو نہیں سکتا لیکن ایک طرف رکھ سکتا ہے۔انہوںنے کہا کہ کچھ دکھ درد اور زخم ایسے ہوتے ہیں جس سے انسان کچھ وقت کے لیے فراموش کرسکتا ہے لیکن وہ دکھ اور درد بھر نہیں سکتے، یہ زندگی کا کاروبار اور مال چلا جاتا ہے تو پھر آجاتا لیکن جو لوگ اپنے پیارے جدا ہوجاتے وہ دوبارہ کبھی نہیں ملتے اور وہ واپس نہیں آتے۔نواز شریف نے کہا کہ میں آج سوچ رہا تھا کہ میں جب بھی کبھی باہر سے آتا تھا تو میری والدہ اور میری بیوی کلثوم گھر کے دروازے میں استقبال کے لیے کھڑی ہوتی تھیں لیکن آج میں جاؤں گا تو وہ دونوں نہیں ہیں، وہ میری سیاست کے نذر ہوگئے، سیاست میں ان کو کھو دیا، وہ مجھے دوبارہ نہیں ملیں گی، یہ بہت بڑا زخم ہے کو کبھی بھرے گا نہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ میں نے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی منتیں سماجتیں کرتا رہا کہ میں عدالت سے آرہا ہوں وہاں مجھے کسی نے بات کرنے نہیں دی لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ وہ دوبارہ آئی سی یو میں گئی ہیں لندن میں میرے بیٹے بات کرادو لیکن اس نے نہیں کرائی۔ان کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ تمہاری میز پر دو فون پڑے ہیں میری بات کرادیں تو اس نے کہا کہ ہمیں اجازت نہیں ہے، میں نے کہا کہ تمہیں اس کے لیے کس سے اجازت درکا ہے تو اس نے کہا کہ ہم نہیں کراسکتے اور وہاں سے اٹھ کر دوبارہ اپنے سیل میں گیا جہاں چارپائی مشکل سے وہاں آتی تھی اور ایک کرسی تھی جہاں میں کبھی بیٹھتا تھا۔نواز شریف نے کہا کہ ڈھائی گھنٹوں کے بعد اس کا نمبر ٹو بندہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے لیے بہت بری خبر ہے، آپ کی بیوی کلثوم اللہ کو پیاری ہوگئیں، بات نہیں کرائی اور ڈھائی گھنٹے کے بعد کہتا ہے کہ بری خبر ہے اور کہتا ہے ہم مریم کی طرف جار ہے ہیں اس کو اطلاع کے لیے لیکن میں نے کہا کہ ہر گز مت جانا اس کے پاس، اس کے پاس یہاں میرے پاس لاؤ یا میں خود اس کے پاس جاؤں گا، ان کا سیل کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہمیں ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ایک ہفتے میں ایک گھنٹے کی ملاقات کی اجازت ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مریم نواز تو بتایا تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور رونا شروع کیا، ان کے اوپر اس وقت کیا گزری ہوگی، کیا سوچا ہوگا کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے، میں بھی اسی وطن کی مٹی سے پیدا ہوا ہوں، سچا پاکستانی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کلنٹن ہمیں زور دار طریقے سے کہہ رہا تھا کہ آپ ایٹمی دھماکے نہیں کریں، دنیا کے لیڈرز کے روز فون آتے تھے آپ دھماکا نہیں کرنا، بھارت نے کر دیا لیکن آپ نے نہیں کرنا اور پھر کہنے لگے ہم پاکستان کو 5 ارب ڈالر دیں گے۔
نواز شریف نے عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں وہ فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہتا ہوں جو میری تربیت مجھے سکھاتی ہے، میں ایسے ماحول میں نہیں پلا کہ گندے معاملات میں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں، میں ایسا نہیں کرتا۔ انہوںنے کہا کہ کلنٹن نے مجھے 5 ارب کی پیش کش کی، یہ ریکارڈ کی بات ہے، شاید ہماری وزارت خارجہ میں اس کا ریکارڈ موجود ہوگا، نکال کر دیکھیں کہ اس نے مجھے پیش کش کی تھی یا نہیں، 1999 کی بات ہے آج 24 سال ہوگئے ہیں۔ پچھلی حکومت کے لوگ ایک،ایک ارب کی بھیک مانگتے تھے لیکن اس وقت 5 ارب ڈالر کی پیش کش ہوئی تھی، مجھے کہہ رہا تھا ہم پاکستان کو دینا چاہتے ہیں، شاید اگر میں خود لینے والا ہوتا تو ایک دو ارب مجھے مل جاتے اور کہتا کہ دھماکے نہ کرو لیکن میں پاکستان کی مٹی میں پیدا ہوا ہوں جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں اس کی وہ بات مانوں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو۔ دنیا کا طاقت ور ترین صدر مجھے کہہ رہا ہے کہ دھماکے نہ کرنا، ہم نے دھماکے کیے اور بھارت کا جواب ٹھیک ٹھاک طریقے سے دیا، میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ امریکا کے صدر کے آگے بول سکتا تھا، تو کیا ہمیں اسی بات کی سزا ملتی ہے، کیا اسی بات کے لیے ہماری حکومتیں توڑ دی جاتی ہیں، ہمارے خلاف فیصلے سنائے جاتے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ میرے زمانے میں روٹی 4 روپے کی تھی آج کتنے روپے کی ہے، آج یہاں پورے پاکستان سے لوگ آئے ہوئے ہیں، کوئی کوئٹہ، کوئی چاغی، کوئی سندھ، کوئی خیبرپختونخوا، کوئی پنجاب کے دور دراز علاقے سے آیا ہے اور کوئی گلگت بلتستان سے آیا ہے، کوئی آزاد کشمیر سے آیا ہے، آزاد کشمیر کے جھنڈے بھی نظر آر ہےہیں اور میں آپ سب کو سلام پیش کرتا ہوں۔کارکنوں سے پوچھا کہ آپ کے علاقے میں روٹی کتنے روپے کی ملتی ہے کیا 20 روپے کی ملتی ہے، میرے زمانے میں 4 روپے کی تھی، اس لیے مجھے نکالا، اس لیے میری چھٹی کرائی، اس لیے کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی لہٰذا فارغ، وزارت عظمیٰ سے چھٹی، کیا آپ اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے۔ملک آج بربادیوں کی حدوں کو چھو رہا ہے لیکن یہ ملک واپس آئے گا اور ہم واپس لائیں گے۔پیٹرول کتنے کا ملتا ہے اور کہا کہ میرے دور میں پیٹرول 60 روپے کا ملتا تھا تو بتاؤ پھر اسی لیے نواز شریف کو نکالا، ڈالر میرے زمانے میں 104 روپے تھا اور آج 250 سے بھی اوپر ہے، اسی لیے پاکستان کے اندر مہنگائی کا طوفان ہے۔
نواز شریفنے کہا کہ نواز شریف کو اس لیے نکالا تھا کہ ڈالر کو ہلنے نہیں دیا، روپے ڈالر کے سامنے کھڑا تھا لیکن پتا نہیں ہم اتنے ناشکرے کیوں ہیں، ایک ملک ترقی کی راہ پر چل رہا تھا۔1991 میں پہلی دفعہ وزیراعظم بنا تھا اور اس وقت جو منصوبے شروع کیے تھے وہ رجحان برقرار رہتا تو آج اتنے سارے لوگ بے روزگار نہیں ہوتے، غریب اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال سکتا تھا لیکن آج تو سوچنا پڑتا ہے کہ بجلی کا بل دیا جائے یا بچوں کا پیٹ پالا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ شہباز شریف کے زمانے کا نہیں ہے، یہ اس سے پہلے شروع ہوگیا، ڈالر قابو میں نہیں آرہا تھا، بجلی کے بل مہنگے ہو رہے تھے، روٹی، گھی، پیٹرول مہنگا ہو رہا تھا اور پھر پاکستان کے اندر ڈالر اور چینی مہنگی ہوتی جارہی تھی، میں 50 روپے کلو چینی چھوڑ کر گیا تھا اور کہاں 50 اور کہاں ڈھائی سو کلو، نواز شریف کو اسی لیے نکالا تھا، پاکستان ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ 6 سال بعد اپنے جلسے سے خطاب کر رہا ہوں، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بجلی کا بل تلاش کرکے لایا ہوں، یہ نصراللہ خان کا بل ہے، جب مئی 2016 میں نواز شریف وزیراعظم تھا، دھرنے ہو رہے تھے، معلوم ہے نا دھرنے کون کروا رہا تھا، ہم نے دھرنوں کے باوجودآپ کے گھروں میں بجلی پہنچائی تھی، دھرنوں کے باوجود موٹرویز بنائی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گلگت سے اسکردو موٹروے نواز شریف نے بنائی تھی، چترال کی لواری ٹنل، گوادر سے کوئٹہ، پشاور سے اسلام آباد موٹر وے، اسلام آباد سے لاہور موٹروے، لاہور سے ملتان، ملتان سے رحیم یار خان اور وہاں سکھر موٹروے بھی ہم نے بنائی تھی، حیدر آباد سے کراچی موٹروے بھی ہم نے بنائی۔انہوں نے کہا کہ نصراللہ خان کا مئی 2016 میں بجلی کا بل ایک ہزار 317 روپے اور پھر اسی بندے کا بل اگست 2022 میں 15 ہزار 687 روپے ہے، تو بجلی مہنگی شہباز شریف نے نہیں کی بلکہ اس زمانے سے مہنگی ہوئی جب آپ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالا تھا۔
سابق وزیراعظم نے ایک اور بل کا ذکر کیا اور کہا کہ سعید اختر ایک غریب آدمی ہے اور ان کا بل مارچ 2017 میں جب نواز شریف وزیراعظم تھا تو 760 روپے تھا جبکہ اگست 2022 میں 8 ہزار 220 بل آتا ہے تو کیا یہ شہباز شریف نے کیا تھا، میں شہباز شریف کی صفائی بیان نہیں کر رہا بلکہ حقائق بیان کر رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ زخم اتنے لگے ہیں کہ بھرتے بھرتے وقت لگے گا لیکن میرے دل کے اندر کوئی انتقام کی تمنا نہیں ہے، نواز شریف کے دل میں بدلے کی کوئی تمنا نہیں، بس ایک ہی تمنا ہے کہ میری قوم کے لوگ خوش حال ہوجائیں، ان کے گھروں میں خوشیاں اور خوش حالی آئے، ان کے گھروں میں روشنی کے چراغ جلیں، روزگار ملے، باعزت پاکستانی بننے کا موقع ملے، غربت، بے روزگاری اور بیماری نہ ہو اور جہالت نہ ہو یہی نواز شریف چاہتا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے دل کے اندر کبھی بھی انتقام کا کوئی جذبہ نہ لے کر آنا، میں اس قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، میں نے پہلے بھی خدمت کی ہے، اللہ مسلم لیگ کو اور بھی توفیق دے کہ خدمت کا سلسلہ جاری رکھے۔غالب کا شعر پڑھا کہ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے، بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے، ہمیں نہ چھیڑوں، ہمارے زخموں کو نہ چھیڑوں ورنہ ہمارے اتنے آنسو آئیں گے کہ طوفان آجائے گا۔آنسو کیوں نہیں آئیں گے، مریم نواز یہاں سامنے بیٹھی ہیں، ان سے پوچھیں کہ وہ اذیت کا لمحہ کوئی کیسے بھلا سکتا ہے کہ جب مریم کو قیدی باپ کے سامنے گرفتار کرکے لے جایا جا رہا تھا، نیب والے میرے آنکھوں کے سامنے قید کرنا چاہتے تھے۔مریم نواز میری پاس آئی اور کہا کہ یہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں، کیا کروں تو میں نے کہا کہ ایک قیدی کیا کرسکتا ہے، قید کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں، ان کی چھوٹی بیٹی موجود تھی اور اپنی ماں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔میں بھی اس مٹی کا بیٹا ہوں اور مریم بھی اس مٹی کی بیٹی ہے، پھر تنا ظلم، شہباز شریف کو بھی جیل میں بھی بند کردیا، بیٹوں کو بھی بند کیا، رانا ثنااللہ کو بند نہیں کیا بلکہ سزائے موت دینے کے چکر میں تھے، حنیف عباسی کو بند نہیں کیا بلکہ سزائے موت دینے کے چکر میں تھے، اور لوگوں کو خواجہ سعد رفیق کو دو سال جیل میں بند رکھا۔مجھے 1990 سے لے کر آج تک 33 سال میں 15 سال یا تو ملک سے باہر یا جیل میں یا مقدمے بھگتا آرہا ہوں، اگر یہ 23 سال میں نے پاکستان کو دیا ہوتا تو یہ ملک جنت بنتا، ہم ملک پھر جنت بنائیں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایک دور گزرا ہے، اس دور کا کوئی ایک کارنامہ یا کوئی ایک منصوبہ بتاؤ جو انہوں نے بنایا تھا۔ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا بیانیہ کیا ہے، ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو پھر اورنج لائن سے پوچھو جو شہباز شریف نے بنائی، کراچی کی گرین لائن سے پوچھو، میٹرو بس سے پوچھو، ایک شہر نہیں کئی شہروں، پشاور، اسلام آباد موٹروے، چاغی کے ایٹمی دھماکوں سے پوچھو، روٹی کی قیمت، ڈالر کے ریٹ، غریب کے بجلی کے بلوں سے پوچھو۔ہمارا بیانیہ پوچھان ہے تو پھر اخلاقیات سے پوچھو، آپ کو پتا ہے کہ ہمارے اخلاقیات اور ان کے اخلاقیات میں کتنا فرق تھا، ہم وہ نہیں ہیں جو کسی کی پگڑی اچھالیں، یہ پگرٹی اچھالنا ان کا کام تھا ہمارا نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل ہیں اس کے تحت کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل ہیں ان کے اسباب پر غور کریں اور آئین کی روح کے مطابق متحد ہو کر مستقبل کا منصوبہ بنائیں۔