اسلام آباد(سی این پی) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں 90 دن میں انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کا حکمنامہ جاری کر دیا۔اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کی جناب سے انتخابات کے حوالے سے خط عدالت میں پیش کردیا۔سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا،عدالت نے سیاسی معاملے پر از خود نوٹس لیا، صدر مملکت نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کی جو غیر آئینی عمل تھا، تحریک عدم اعتماد کے بعد صدر، وزیراعظم کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی ، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔2 نومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا ، پورا ملک اس شش و پنج میں تھا کہ ملک میں عام انتخابات نہیں ہو رہے، آئین اور قانون پر عملدرآمد ہر شہری پر فرض ہے، قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان اختلاف ہوا، ہم صرف یہ چاہتے تھے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی سہولت کاری کریں، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہی، اعلی آئینی عہدہ ہونے کے ناطے صدر مملکت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے، صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے،صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا،سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں،صدر مملکت ملک کا اعلی عہدہ ہے،حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے، تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں،صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے، آئین سے انحراف کا کوئی آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں، آئین کو بنے 50 سال گزر چکے، اب کوئی ادارہ آئین سے لاعلم ہونے کا نہیں کہہ سکتا، 15 سال قبل آئین کو پامال کیا گیا۔آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں،بدقسمتی سے پاکستان میں متعدد بار آئین کو پامال کیا گیا، صرف عوام کے مفاد میں آئینی ادارے اہم فیصلے کر سکتے ہیں، امید کرتے ہیں تمام آئینی ادارے مستقبل میں سمجھداری کا مظاہرہ کریں گے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی،وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا،اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا۔غیر آئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔اسمبلی کی تحلیل عدم اعتماد کی تحریک کو روکنے کے لیے کی گئی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس اسمبلی تحلیل کو غیر آئینی قرار دیا۔ایک ساتھی جج اس سے بھی آگئے جاکر لکھا تھا کہ آئینی خلاف ورزی کے نتائج بھی ہونے چاہیں۔ آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیا سے متعلق سخت ریمارکس دئیے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کسی اینکر یا رپورٹر کو اجازت نہیں کہ مائیک پکڑ کر عوام کو گمراہ کرے، میڈیا انتخابات پر اثرانداز ہوا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی،میڈیا والے مائیک پکڑ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ انتخابات کے انعقاد میں شبہ ہے،اگر کسی کے دماغ میں شک ہے تو رہے لیکن عوام پر اثرانداز نہ ہوں،امید ہے کسی مخالف کو گالیاں دیئے بغیر پرامن انتخابات ہوں گے۔کسی میڈیا والے کو انتخابات پر شبہات ہیں تو عوام میں نہیں بولے گا ہاں مگر اپنی بیوی کو بتا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن پیمرا کو شکایت کرے گا اگر کسی میڈیا ہاس نے الیکشن سے متعلق ابہام پیدا کیا۔چیف جسٹس نے اختتامی ریمارکس دئیے کہ اس لائٹر نوٹ پر سماعت ختم کر رہا ہوں کہ الیکشن خیر وعافیت سے ہو جانے چاہئیں۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کیلئے پولنگ 8 فروری کو ہو گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن میں سپریم کورٹ کی سماعت اور احکامات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس سے قبل 11 فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم صدر مملکت سے جب مشاورت کی گئی تو 8 فروری کی تاریخ سامنے آئی۔