پاکستان یاتحریک طالبان :افغانستان کسی ایک کا انتخاب کرے،نگران وزیر اعظم کا دوٹوک جواب

اسلام آباد (سی این پی)نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے افغان رہنماوں کے دھمکی آمیز بیانات کو افسوسناک قرار دیتے دو ٹوک موقف اپنایا کہ افغانستان تحریک طالبان یا پاکستان کسی ایک کا انتخاب کرے، اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں خود کش حملوں میں 60فیصد اضافہ ہوا، پاکستان میں بے امنی پھیلانے میں غیر قانونی تارکین وطن کا ہاتھ ہے۔ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری تھی، اس کا اسلحہ کہاں گیا؟امریکی اسلحہ اب بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اس کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ افغان حکومت کی ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی انکے اور ہمارے بھی حق میں ہے ،کچھ بھی ہو جائے غیرقانونی تارکین کی پالیسی سے واپسی ممکن نہیں ۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا جب بھی افغانستان پر مصیبت آئی پاکستان نے ان کی بھرپور مدد کی، پاکستان نے 40 لاکھ افغان شہریوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا، افغانستان میں عبوری حکومت بننے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ غیر قانونی طور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے، 8 لاکھ افغان شہریوں کو عبوری طور پر سٹیزن کارڈ مہیا کیے گئے۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا پاکستان میں بے امنی پھیلانے والوں میں غیر قانونی تارکین وطن کا ہاتھ ہے، دہشتگردوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، دہشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں، افغان عبوری حکومت کو سفارتی، سیاسی، فوجی، رسمی اور غیر رسمی ذرائع سے افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کا قلعہ قمع کرنے کا واضح پیغام دیا جاتا رہاہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کو افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرست بھی دی گئی, دہشتگردوں سے متعلق معلومات افغان حکومت کے ساتھ شیئر بھی کی گئیں لیکن پاکستان مخالف دہشت گردوں کےخلاف افغانستان نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ بدقسمتی سے طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں خود کش حملوں میں60 فیصد اضافہ ہوا، 2 سال میں سرحد پار دہشتگردی کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، 64 افغان دہشتگرد پاکستانی سکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے، کوشش تھی ایسے معاملات کو میڈیا پر لائے بغیر افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے لیکن افغان حکومت کے مثبت ردعمل نہ آنے پر معاملات خودٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا۔غیر قانونی طورپر مقیم افغانوں کی واپسی پر دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں اضافے سے متعلق سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا ہمارے کچھ خدشات ہیں، ہم الرٹ ہیں اور تمام پہلوو¿ں پر غور کر رہے ہیں، کچھ بھی ہو جائے اس پالیسی سے واپسی ممکن نہیں ہے۔

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا افغان رہنماو¿ں کے حالیہ بیانات کے بعد حملوں میں تیزی آنا معنی خیز ہے، رضاکارانہ جانے والے افغان شہریوں کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیج رہے ہیں، پاکستان کے اوپر کسی بھی ملک کا کسی بھی قسم کا کوئی دباو¿ نہیں ہے، افغان رہنماو¿ں کے دھمکی آمیز بیانات افسوسناک ہیں، افغانستان کی عبوری حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں خودمختار ممالک ہیں۔پارا چنار میں سرحد پار سے کارروائیوں سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم کا کہنا تھا اس حوالے سے صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر دی ہیں، کسی کو بھی ایک انچ حصے پر کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ٹی ٹی پی کے خلاف افغان سرزمین میں کارروائیوں سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ہمیں امید ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گی، یہ ان کے بھی حق میں ہے اور ہمارے بھی حق میں ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان آنے والے 25 ہزار افغانوں کا ڈیٹا پاکستان کے پاس موجود ہے، ان لوگوں کو جن ممالک میں جانا ہے وہ بھی تیار ہیں اور ہم نے انہیں ان ممالک کو بھیجنا ہے ہم بھی تیار ہیں۔ افغانستان پانچواں صوبہ نہیں وہ الگ ملک ہے ۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا امریکی اسلحہ اب بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اس کے شواہد سامنے آ چکے ہیں، ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری تھی، اس کا اسلحہ کہاں گیا؟ یہ امریکی اسلحہ پورے خطے میں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اور مشرق وسطیٰ تک جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو جاری رکھیں گے، پاکستان نے اب داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے، افغان حکومت کی طرف سے مثبت ردعمل نہ آنے پر معاملات خود ٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا اور تمام غیر ملکی خاندانوں کو عزت کے ساتھ واپس جانے کے مواقع فراہم کیے ہیں، افغان حکومت بھی غیر قانونی مقیم پاکستانیوں کو ہمارے حوالے کرے، افغان عبوری حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں ریاستیں خودمختار ہیں..غزہ کی صورتحال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ غزہ کے لئے جتنا کیا جائے اتنا کم ہے، ڈیڑھ ارب مسلمان ان کی امداد سے مطمئن نہیں، وہاں خواتین اور بچوں پر حملے ہو رہے ہیں، ہسپتالوں پر حملے ہو رہے ہیں، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے ایسا ظلم صدیوں میں کسی کے ساتھ نہیں ہوا، البتہ اس حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ ایک سیشن کا انعقاد کیا جائے گا جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور وہاں خوارک، ادویات سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پہنچانا ہے، اس کے بعد دیکھیں گے کہ مزید کیا ہونا چاہیے