اسلام آباد(سی این پی) سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف دائر ریفرنسز سننے والی جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس فائز عیسی سمیت دو ججز کی شمولیت پر اعتراض کردیا،شوکاز نوٹس جمع کراتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق متعصب ہیں ،دونوں کو میرے خلاف کیس نہیں سننا چاہیے۔سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف دس کے قریب شکایات جمع ہیں، آج جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھا دیئے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے ریفرنس اور شواہد کی نقول بھی مانگ لیں اور اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں تحریری جواب جمع کرایا ہے جو کہ 18 صفحات پر مشتمل ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے موقف اختیار کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شفاف ٹرائل جج کا حق ہے اس لیے مجھے جوڈیشل کونسل کا جاری کردہ شوکاز نوٹس بنیادی حقوق کے منافی ہے،جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی پریس ریلیز میری رائے کے بغیر جاری کرنے سے میرے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے شوکاز نوٹس میں مزید کہا ہے کہ جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب متفقہ فیصلہ ہو، جوڈیشل کونسل اکثریتی فیصلے کے زریعے کسی جج کیخلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود کونسل کے رولز کو غیر آئینی قرار دینے کی رائے دے چکے ہیں، میرے اوپر لگائے گئے الزامات کی تصدیق کیے بغیر مجھے شوکاز نوٹس بھیجا گیا،کونسل اجلاس میں میرے خلاف شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا،جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار اور متعصب ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا حصہ ہیں، جن آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن بنایا گیا وہی میرے خلاف شکایات کا بھی حصہ ہیں، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اختر کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، جانبدار سپریم جوڈیشل کے جاری اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔