اسلام آباد(سی این پی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے جیل ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئر مین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل منظور کرلی اورسائفر کیس میں جیل ٹرائل کا 29 آگست کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جاسکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل ان کیمرہ یا اوپن ہوسکتا ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نومبر کو کابینہ کی منظوری کے بعد جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کا ماضی پر اطلاق نہیں ہوگا۔قبل ازیں ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جج نے 8 نومبر کو آخری خط لکھا، جج کا خط جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہیے۔ جیل ٹرائل سے متعلق آج تک جوڈیشل آرڈر نہیں آیا،مان بھی لیا جائے کہ بارہ نومبر سے کابینہ کی منظوری کیلئے طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوگی، ماضی کی کارروائی پر 13 نومبر کے نوٹیفکیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے ، پراسکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔
رجسٹرار ہائیکورٹ نے بتایا کہ جج کی تعیناتی کے پراسیس کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا اور ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائیکورٹ کو آگاہ بھی کیا تھا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سائفر کیس میں ابھی تک جیل ٹرائل کی تمام کارروائی غیر قانونی ہے، اگر مستقبل میں بھی جیل ٹرائل کرنا ہے تو جوڈیشل آرڈر لائیں اور کابینہ سے منظوری لیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے مو¿قف اختیار کیا کہ اس بات سے اتفاق ہے کہ جیل ٹرائل کو بند کمرے کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے اور جو کوئی بھی سماعت اٹینڈ کرنا چاہتا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے۔