ایف آئی اے نے پولیس کی موجودگی میں سینئیر صحافی محسن جمیل بیگ کوشدید تشدد کا بھی نشانہ بنایا
ایف آئی اے نے باپ سمیت دو ملازمیں کی گر فتاری ڈال لی جبکہ بیٹے حمزہ کو غائب کر دیا جس کا تاحال پتہ نہ چل سکا
و فاقی دارلحکومت کے سیکٹر ایف ایٹ میں صحافی محسن جمیل بیگ کے گھر مسلح افراد گھس گئے مزاحمت پر ہوائی فائرنگ اسلحہ کی نوک پر باپ بیٹے کو اغواکرنے کی کوسش ون فائیو کال پر مارگلہ پولیس آگئی پولیس کے آنے پر پتہ چلاکہ ایف آئی اے لاہورنے وفاقی وزیر کی در خواست پر مقد مہ نو بجے درج کر کے ساڑھے نو بجے ڈرامائی انداز میں اسلام آباد پہنچ گئے اسلام آباد پولیس نے د ہشت گردی کی د فعہ لگا کرباپ سمیت دو ملازمیں کی گر فتاری ڈال لی جبکہ بیٹے حمزہ کو غائب کر دیا جس کا تاحال پتہ نہ چل سکا جبکہ دوسری جانب ایف آئی اے نے محسن جمیل کے گھر اور دفتر میں ریحام خان کی کتاب کا صفحہ برآ مد کرنے کے لئے چھاپوں کا سلسلہ جاری جبکہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے محسن جمیل بیگ کی گرفتاری کو غیرقانونی قراردیدیا ہے جبکہ ملک بھرکی صحافتی تنظیموں نے محسن بیگ کی گرفتاری کیخلاف پورے ملک میں احتجاج کیا ۔ایف آئی اے نے پولیس کی موجودگی میں سینئیر صحافی محسن جمیل بیگ کوشدید تشدد کا بھی نشانہ بنایا ۔ ملک کے نامور اور سینئر صحافی کی شرمناک گرفتاری کیلئے ایک طرف ایف آئی اے نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور دوسری طرف قانون کو بھی پامال کیا گیا۔ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق16فروری کی صبح 9بجے وفاقی وزیر مراد سعید نے سائبر کرائم سرکل لاہور میں درخواست دی اور عین اسی وقت ایف آئی اے کے اہلکار محسن جمیل بیگ کے گھر گھسے۔درحقیقت ایف آئی اے کی ٹیم نے جب محسن جمیل بیگ کے گھرپر ریڈ کیا اس وقت ایف آئی آر کا وجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ایف آئی اے کی ٹیم کے پاس وارنٹ گرفتاری تھے۔محسن بیگ اور انکے وکلاءاعظم نیازی اور راحیل نیازی کی طرف سے ایف آئی اے کے اہلکاروں کو باربار وارنٹ گرفتاری اور ایف آئی آر دکھانے کیلئے کہا گیا لیکن وہ انکار کرتے رہے اور بعد ازاں ایف آئی اے کے اہلکاروں نے محسن جمیل بیگ سے بدسلوکی کی تو محسن جمیل بیگ اور انکے بیٹے حمزہ بیگ نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی اور ایک اہلکار پکڑا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایف آئی اے کا عارضی سب انسپکٹر ہے۔چونکہ ایف آئی اے کے اہلکار محسن جمیل بیگ کے گھر میں گھس کر انہیں ہر حال میں گرفتار کرنے کے درپے تھے اور ایف آئی آر بھی نہیں دکھا رہے تھے کیونکہ اس وقت ایف آئی آر اور وارنٹ گرفتاری ان کے پاس موجود نہیں تھے۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ محسن جمیل بیگ کے خلاف درخواست وفاقی وزیر مراد سعید نے لاہور ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں دی اور ریکارڈ کے مطابق یہ مقدمہ لاہور میں16فروری کو صبح 9بجے درج ہوا لیکن ایف آئی اے لاہور کی ٹیم نے تھانہ مارگلہ پولیس کو ساتھ لئے بغیر ہی9بجے محسن بیگ کے گھر پر دھاوا بول دیا۔اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر نے بھی اس چھاپے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے ٹیم نے یہ کہا ہے کہ وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ایاز کی نگرانی میں وہاں گئے تھے،مگر ایاز اس وقت ان کے ساتھ موجود ہی نہیں تھے۔محسن جمیل بیگ کے کہنے پر ڈی ایس پی ملک بشیر کو اطلاع دی گئی اور وہ موقع پر پہنچے اور ایس پی آپریشنز فیصل کامران نے محسن بیگ کو کہا کہ تھانے چلیں وہاں جاکر بات کرتے ہیں عینی شایدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے پستل بر آمد کر لیا اور پھر تھانے میں لے جاکر ایف آئی اے کے اہلکاروں کو تشدد کیلئے ان پر چھوڑ دیا گیا۔اس تشدد کے نتیجے میں ان کی پسلیاں اور ناک کی ہڈی ٹوٹی۔ایک سرکاری ادارے نے دوسرے سرکاری ادارے کی نگرانی میں ان پر تشدد کیا گیا جو کہ ریاستی جبر کی بدترین مثال ہے ۔ دریں اثناء اسلام آباد میںاپنے گھر سے گرفتار کیے گئے محسن جمیل بیگ کو اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔عدالت نے محسن بیگ کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا اور تفتیش کے لیے انہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔محسن بیگ کو کمرہ عدالت میں پیش کرنے کے بعد دروازہ لاک کیا گیا، تاہم کورٹ رپورٹرز کے احتجاج کے بعد انہیں رپورٹنگ کی اجازت دے دی گئی۔ محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ مقامی پولیس اسٹیشن کو اطلاع دیے بغیر سادہ کپڑوں میں چھاپہ مارا گیا، آج کل جیسے وارداتیں ہو رہی ہیں میں تو سمجھا ڈاکو گھس آئے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مجھے ایف آئی اے والوں نے تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا، تشدد کر کے میری پسلیاں بھی توڑ دی گئی ہیں، میرا میڈیکل کرانے کا حکم دیا جائے۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج نے کہا کہ یہ بات تو تفتیش میں ثابت ہو گی کہ کیا ہوا ہے۔محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ میرے تمام ہتھیاروں کا لائسنس موجود ہے، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے۔محسن بیگ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی واضح ہدایات ہیں کہ یونیفارم کے بغیر کسی کے گھر نہیں جا سکتے، ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ ایف آئی اے والے ہیں یا کوئی چور، ڈاکو ہیں۔ دریںاثناء ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ 9 بجے ہوا اور ساڑھے 9 بجے ایف آئی اے نے چھاپہ مارا ۔ بغیر کسی سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا۔ محسن بیگ کا بیان پولیس ریکارڈ کرے اور قانون کے مطابق کارروائی کرے ۔فیصلے میں کہاگیا ہے کہ سوا دو بجے تک ایس ایچ او نے ریکارڈ اور غیر قانونی حراست میں رکھے محسن بیگ نہیں پیش کیا۔ایف آئی اے اور ایس ایچ او کی ایف آئی آر سے ثابت ہوتا ہے چھاپہ غیر قانونی مارا گیا۔چھاپہ مار ٹیم میں جو لوگ شامل تھے وہ چھاپہ مارنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔تھانہ مارگلہ ایس ایچ او نے ان غیر قانونی افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے اپنی الگ مقدمہ دیدیا۔ایس ایچ او نے جعلی کارکردگی دکھانے کے لیے مقدمہ درج کیا۔ فیصلے میں آئی جی اسلام آباد کو ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے ۔ ادھر ذرائع کے مطابق محسن بیگ کی گلی کے باہر پولیس کی نفری تعینات کردی گئی ہے ۔شہریوں کو بھی گلی کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ۔ جبکہ ایف آئی اے نے محسن بیگ کے گھر میں انکی گرفتاری کے بعد بھی تین مرتبہ چھاپہ مارا اورپانچ ملازمین کو ساتھ لے گئے ۔واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سوشل میڈیا پر حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے الزام میں محسن بیگ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور جبکہ مارگلہ پولیس نے دہشت گردی کی دفعہ سمیت دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کئےاور گر فتار کر لیاجبکہ ان کے بیٹے حمزہ بیگ کی گر فتاری نہیں ڈالی گئی اس کا تاحال کوئی پتہ نہیںاس حوالے سے ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے قانون کے مطابق کاروائی کی ہے