اسلام آباد (سی این پی)سیاسی جماعتوں نے الیکشن اخراجات پورے کرنے کے لیے گنے کے کاشتکاروں کو لوٹنا شروع کردیاگنے کے وزن میں ناجائز کٹوتیوں اور بروکرز کے زریعے سستا گنا خرید کر کے فی شوگر ملز روازنہ 5سے 6کروڑ کی ڈکیتی مار رہی ہے۔ ماضی کی چالبازیوں اور 7لاکھ میٹرک ٹن چینی سمگلنگ کا کیس سامنے آنے کے بعد حکومت نے شوگر ملز کو چینی کی قیمتوں میں اضافے سمیت مزید ایکسپورٹ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف ، شہباز شریف، استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما جہانگیر ترین، جنرل اختر عبدالرحمن کا بیٹا رہنما پی ٹی آئی ہمایوں اختر اور ان کا بھائی ہارون اختر، سابق وفاقی وزیر ،رہنما پی ٹی آئی خسرو بختیار، چیئر مین کر کٹ بورڈ ، راہنما پی پی پی ذکااشرف، الطاف سلیم، چوہدری وحید، شمیم خان، میاں رشید کی شوگر ملز میں مبینہ طور پر کرشنگ سیزن کو شروع ہوئے پندرہ دن کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ پنجاب کی شوگر ملوں کی طرف سے گنے کے کاشتکاروں سے ناجائز کٹوتیوں اور بروکرز کے زریعے سستے گنے کی خریداری کرکے لوٹ کھسوٹ کی شکایات آنا شروع ہو گئی ہیں۔
کاشت کاروں کے مطابق کم قیمت میں خریداری کے ساتھ ورائٹی اور نان ورائٹی گنے کے نام پرفی ٹرالی اور ٹرالر پچاس ساٹھ من گنے کی کٹوتی فی ٹرالہ بائیس ہزار روپئے سے زیادہ کی کٹوتی کی جا رہی ہے۔ مزاحمت کرنے والے کاشت کاروں کی گنے سے لوڈ ٹریکٹر ٹرالیاں مل سے باہر نکال دی جاتی ہیں ،شوگر ملز کے باہر بروکرز نے ڈیرے ڈال رکھے یہی گنا سستا فراہم کرنے پر اوکے کی رپورٹ دے دی جاتی ہے، رحیم یار خان کی پانچوں اتحاد ،آروائی حمزہ شوگر ملز اور جے ڈی گروپ کی شوگر ملز ورائٹی اور نان ورائٹی کے نام پر پر کاشت کاروں کی تذلیل کی جا رہی ہے ،گنے کی لوڈ ٹرالیوں کو ملز سے نکالا جا رہا ہے
کسان بچا تحریک کے چیئرمین چوہدری محمد یاسین ، کسان فانڈیشن کے چیئرمین سید محمود الحق بخاری ،انجمن تحفظ کاشتکاراں سردار یعقوب سندھو کے مطابق کھاد مافیا ،سیڈ مافیا اور شوگر مافیا زرعی معیشت کا جنازہ رہے ہیں ،شوگر ملز کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے امسال سندھ اور پنجاب میں سوا چھ لاکھ ایکڑ کاشت کم ہے ،آمدہ سیزن میں یہ کاشت مزید کم ہو جائے گی
مظفر گڑھ سے کسان راہنما ملک اسماعیل کھر نے بتایا ہے کہ ہمایوں اختر کی مل رحمان حاجرہ اورمیاں مختار کی مل فاطمہ شوگر مل نے کٹوتی شروع کر رکھی ہے۔ اسی طرح سے فیصل آباد سے کسان راہنماں کے بقول مدینہ شوگر مل، کنجوانی شوگر مل، چنار شوگر مل نے کٹوتی شروع کر دی ہے۔ کاشت رہنماں کے مطابق گنے کی فصل ایک سال کی ہوتی ہے۔ اس کی پیداواری لاگت اور کٹائی اور ٹرانسپورٹیشن بمع ٹھیکہ کسی طور پر بھی چار لاکھ سے کم نہیں۔ اس پر کٹوتی کسان کو کچلنے کے مترادف ہے۔ کھیت سے شوگر ملز تک گنے کی ٹرالی پہنچتی ہے جہاں شوگر ملز کے اہلکار مٹی گرم نہ کرنے گنے میں نان ورائٹی مکس کا الزام لگا کر ٹرالیاں شوگر ملز سے نکالنے کا حکم نامہ سنا دیتے ہیں اگر کاشت کار شوگر ملز والوں کو بیس سے بچیس فیصد کٹوٹی کی اجازت دے دیں تو گنے کی ٹرالی حلال ہو جاتی وگرنہ حرام قرار دے کر مل کے ساتھ بیٹھے بروکر کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو بچھی کچھی کسر پوری کر دیتے ہیں تین سال قبل اس وقت کی حکومت نے شوگر فیکٹریز ایکٹ میں تبدیلی کی اور کٹوتی جیسے جرائم کی سخت سزا رکھی۔ اس دوران مل ملکان کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا۔ جس کی وجہ سے مل مالکان نے اس وقت کے کین کمشنر زمان وٹو کو تبدیل بھی کروا دیا تھا۔ ان کی تبدیلی کے بعد سے ملوں پر ہاتھ ہولا ہو گیا ہے۔ اس سال مل مالکان بلا خوف و خطر کسانوں کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں-
ایک اندازے کے مطابق شوگر ملیں ہر سال کسانوں سے پندرہ سے بیس ارب روپئے کی کٹوتی کرتی ہیں۔ شوگر مل مالکان کا اتنا سیاسی اثر و رسوخ ہے کہ ان کے خلاف حقیقی کاروارئی نہیں کی جا رہی۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت نے فی من گنے کا ریٹ سندھ سے 25روپے کم مقرر کرکے کاشت کار کے حق پر ڈکیتی ماری،زرعی مداخل کھاد بجلی ڈیزل مہنگے ہونے اور لیبر اخراجات بڑھنے اور شوگر ملوں کے اسی استحصال کی وجہ سے اس دفعہ گنے کی کاشت میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال پنجاب میں 3 لاکھ 81 ہزار ایکڑ اور سندھ میں 1لاکھ 83ہزار ایکڑ پر کم رقبہ ہر گنا کاشت ہواہے۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومت کو اس سال چینی درآمد کرنا پڑے گی۔ چوہدری محمد یاسین کے مطابق شوگر ملیں مختلف ہتھکنڈوں کی وجہ سے کسانوں کی دیگر فصلات یعنی گندم، کپاس، مکئی وغیرہ پر منتقلی کو ناممکن بنا رہی ہیں۔ اس دفعہ کپاس کا ریٹ اعلان کردہ ریٹ سے کم رہا ہے اور بہت سے کسانوں کو خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔ گندم کی کاشت کا جب وقت نکل گیا تو تب شوگر ملیں چلائی گئیں تاکہ کسان گنے کی زمین پر گندم کاشت نہ کر لے۔شوگر ملیں تاخیر سے چلنے کی وجہ سے پنجاب میں آڑھائی سے تین لاکھ ایکڑ اور سندھ میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ پر گندم کی کاشت نہیں ہو سکی ہے ،اسی طرح مکئی میں کسانوں کو انتہائی زیادہ نقصان اٹانا پڑا۔ پچھلے سالوں مکئی کا ریٹ پانچ ہزار تک چلا گیا۔ اور تین ہزار سے کم تو ہوا ہی نہیں۔ اس ڈیڑھ ہڑار روپئے فی من مکئی بک رہی ہے۔ اس سب کے باوجودکسان کٹوتیوں اور گنے کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے گنے سے بدظن ہو چکے ہیں اور گنے کی گاشت میں کمی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اگر حکومت شوگر ملوں کی لوٹ مار سے گنے کے کاشتکار کو نہیں بچا پاتی اور شوگر مل والے عقل کے ناخن نہیں لیتے تو ملکی ضرورت کے لحاظ سے چینی کی ایکسپورٹ کے لیے کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ شوگر مل والے انڈے کے لالچ میں مرغی ذبح کر رہے ہیں اور اپنے ہی پاں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔
کاشت کار رہنما سردار یعقوب سندھو کے مطابق شوگر ملز کو چند ماہ قبل حکومت نے آڑھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کی اجازت دی اس اجازت کی آڑ میں شوگر ملز نے نہ صرف 7لاکھ میٹرک ٹن چینی سمگل کر دی بلکہ ملک میں فی کلو چینی کے ریٹ 185سے200روپے تک پہنچا دیئے، شوگر ملز نے پچھلے سیزن میں سستے داموں خرید کردہ گنے کے باوجود حکومت پنجاب سے چینی کے فی کلو نرخ 90روپے سے بڑھوا کر 140روپے کر دیئے ،ملک میں چینی مہنگی ہونے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے تو اربوں روپے کی چینی پکڑی گئی ،شوگر ملز کی چالبازیوں کی وجہ سے حکومت ملک میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر شوگر ملز کو چینی کی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دینے سے کترا رہی ہے ۔
اب چینی کی قیمتوں میں اضافے اور ایکسپورٹ کی اجازت نہ ملنے پر شوگر ملز نے گنے کے کاشتکاروں کو ناجائز کٹوتیوں اور حراساں کر کے بروکرز کے زریعے سستے گنے کی خریداری شروع کر دی ہے اس صورتحال پر شوگر ملز پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت چینی کی ایکسپورٹ اور قیمت بڑھانے کی اجازت دے وگرنہ شوگر ملز بند کر دی جائیں گی ،چینی کی حالیہ قیمتیں گزشتہ سیزن کے کیری اوور اسٹاک سے منفی طور پر متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ ایک ارب ڈالر مالیت کی 10 لاکھ ٹن سر پاس چینی میں سے کم مقدار کی برآمدات اور چینی کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر عائد غیر قانونی پابندیاں ہیں۔ اضافی چینی کے ذخائر کی برآمد یا خریداری بذریعہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) برائے اسٹریٹجک ریزرو کی بابت شوگر انڈسٹری کی بارہا درخواستوں کے باوجود تاحال حکومتی تعاون حاصل نہیں ہوا ہے۔
موجودہ کرشنگ سیزن میں چینی کی پیداوار اور اس کی پیداواری لاگت سے کم پر فروخت کرنا اور بھاری نقصان اٹھا کر لمبے عرصے تک چلنا شوگر ملوں کیلئے نا ممکن ہوتا جا رہا ہے اور شوگر ملوں کو ان کے قابو سے باہر ایسی کسی وجہ کی بنا پر اچانک بند ہونے پر مجبور کر سکتا ہے۔کاشت کار تنظیموں نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر ملز گنے سے چینی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ مڈھ بگاس سیرہ حاصل کرتی ہیں،کاشت کاروں کو گنے کی میل مڈھ کی ٹرالی 40ہزار میں فروخت کی جا رہی جبکہ سیرہ اور بگاس بھی مہنگے داموں فروخت کر رہی،متعدر شوگر ملز نے اپنی شوگر ملز میں بجلی بنانے کے پاور پلانٹ،الکوحل اور سپرٹ بنانے والے یونٹس کے ساتھ ساتھ اسٹیل ملز قائم کر دی ہیں ، اگر شوگر ملز کو خسارہ ہے تو پھر اس ملک کے کسان کا اللہ ہی حافظ ہے کاشت کاروں نے وزیر اعلی پنجاب کین کمشنر پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ شوگر ملز کی لوٹ کھسوٹ کا نوٹس لے کر خلاف ورزی کرنے والی شوگر ملز کے خلاف کارروائی کریں ، گنے کی رقوم کی بروقت ادائیگیاں یقینی بنائی جائیں ، ماضی میں شوگر ملز کی لوٹ کھسوٹ بارے بنے والے کمیشن کی رپورٹس کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔