پشاور(سی این پی)پشاورہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے انتخابی نشان ’’بلا‘‘ بحال کر دیا۔ الیکشن کمیشن و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ صاف نظر آرہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے۔
درخواست پر سماعت پشاور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی جبکہ بیرسٹر گوہر اور علی ظفر ایڈوکیٹ نے دلائل دیے۔
علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیار سے تجاوز کیا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا کہا اور ہم نے انتخابات کرائے لیکن 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراد دے دے۔
ہم نے 2 دسمبر کو انتخابات کرائے اور پورے میڈیا نے رپورٹ کیا، الیکشن کمیشن کو تمام ڈاکومنٹس فراہم کیے۔
وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ انتخابات ٹھیک ہوئے لیکن جس نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے اس کی تعیناتی ٹھیک نہیں ہوئی
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ہم اب انتخابات میں بطور پارٹی حصہ نہیں لے سکتے۔ یہ آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے اور آرٹیکل 17 تنظیم سازی کا کہتا ہے، آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ہر شہری تنظیم بنا سکتا ہے۔
جج کامران حیات نے کہا کہ میں نے فیصلہ نہیں پڑھا، کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ بالکل الیکشن کمیشن نے یہی لکھا ہے اور اس پر انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں، انتخابی نشان ایک بنیادی حق ہے جو ہم سے لے لیا گیا ہے۔
جج کامران حیات میاں خیل نے کہا کہ یہ جو درخواست گزار تھے اس کیس میں، جس کا الیکشن کمیشن فیصلے میں ذکر ہے یہ کون ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن تو خود فریق بن گیا ہے، جو درخواست گزار تھے وہ پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہے
الیکشن کمیشن نے کسی بھی جگہ پر یہ نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے۔ جسٹس کامران میاخیل نے کہا کہ الیکشن کمشن کہتا ہے کہ عمر ایوب جنرل سیکریٹری نہیں ہے اس نے چیف الیکشن کمشنر کو کیسے لگایا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی گراونڈ نہیں ہے
اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سول کورٹ جا سکتا ہے، آئین و قانون یہی کہتا ہے لیکن کشن کمیشن کا یہ اختیار نہیں ہے۔ کل کو الیکشن کمیشن کہے گا کہ 1997 میں جس کو منتخب کیا تھا وہ غلط تھا تو پھر کیا ہوگا۔
جج نے استفسار کیا کہ آپ کے اپنے پارٹی کے کیا رولز ہے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق؟
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ہماری پارٹی کے اپنے رولز ہیں، چیئرمین اور جنرل سیکریٹری کے لیے خفیہ بیلٹ پیر کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے انتخابی نشان ’’بلا‘‘ بحال کر دیا۔ الیکشن کمیشن و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔