اسلام آباد(سی این پی) چیف جسٹس آف پاکستان نے بلے کی بحالی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے پی ٹی آئی نے خود اپنے پاں پر کلہاڑی ماری ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی نے کیس کی سماعت کی
جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کیا کہ ابھی تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوا؟ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور لگتا ہے فیصلہ آنے میں ایک ہفتہ لگ جائے گا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہفتہ 13جنوری کو سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہفتہ اور اتوار کو بھی سماعت کر لیتے ہیں، ہم قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے دن رات کام کرنے کو تیار ہیں، ہم اپنی چھٹی تک قربان کرنے کو تیار ہیں، کل ہفتہ کے روز کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیں، اگر پیر تک سماعت ملتوی کی تو پھر یہ اکیڈیمک کارروائی ہوگی اور پیر تک سماعت ملتوی کی تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کریں گے۔
الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ پی ٹی انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں ہوا۔ جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بتائیں سیاسی جماعت انتخابات کے لیے فیڈرل الیکشن کمشنر کیسے تعینات کرتی ہے، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے پی ٹی آئی کا فیڈرل الیکشن کمشنر بھی درست تشکیل نہیں ہوا وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ جمال اکبر انصاری فیڈرل الیکشن کمشنر تھے اور اب نیاز اللہ نیازی فیڈرل الیکشن کمشنر ہیں، پی ٹی آئی کا فیڈرل الیکشن کمشنر قانون کے مطابق تشکیل ہی نہیں دیا گیا۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی اپیل کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیش نے درخواست دائر کی ہے، پر دیکھنا ہوگا وہ ایسا کرسکتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کلکلٹرز کی اپیل بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک آتی ہے، سوال یہ بھی اٹھے گا کہ پی ٹی آئی کیسے ہائیکورٹ گئی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارے خلاف فیصلہ تھا اس لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن ایک فیصلہ کرے اور اسکا دفاع کرنے کے بجائے ارنڈی کر دے، الیکشن کمیشن ایسا کیوں کر؟ سیپرٹ بافی کی آپ نے مثال دی تو کلکٹر بھی سیپرٹ بافی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے مسابقتی کمیشن کے ایک کیس کی مثال دی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ مثال آئینی ادارے پر کیسے نافذ ہوسکتی ہے، ہم بطور سپریم کورٹ آئین میں اضافہ یا تبدیلی نہیں کرسکتے، کیا کوئی اصول ہے جس میں الیکشن کمیشن جیسے ادارے بارے کوئی فیصلہ ہو، آپ جن عدالتوں کے فیصلوں کی بات کر رہے ہیں وہ ذیلی اداروں سے متعلق ہیں، فیڈرل الیکشن کا تقرر کیا پی ٹی آئی آئین کے تحت ہوا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں 14شکایات تھیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ 14 شکایات پی ٹی آئی ممبران کی تھیں یا دیگر سیاسی جماعتوں کے ممبران تھے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 14شکایات پی ٹی آئی ممبران نے جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو پسند نہیں ہے تو الگ بات ہے لیکن دستاویزات سے بتائیں کہ یہ 14 شکایت کنندگان پی ٹی آئی کے ممبران نہیں تھے اور جذباتی نا ہوں بلکہ ثبوت دکھائیں۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ فانڈنگ ممبر کو اگر نکالا گیا تو اس کا کاغذ دکھا دیں۔ یف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فانڈنگ ممبران کی فہرست بھی پیش کر دیں۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ اکبر ایس بابر کو پارٹی سے ہٹانے کی دستاویز نہیں دکھائی گئی، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یعنی ابھی تک اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں۔ وکیل اکبر ایس بابر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کو ممبر قرار دیا، ممبر تسلیم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ وکیل احمد حسن نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتوں میں ایک یا دو عہدوں میں امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوتے ہیں، الیکشن میں سخت مقابلہ ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں تو انٹرا پارٹی الیکشن میں سخت مقابلہ ہوتا ہے، یہاں تو 15 کے 15 لوگ بلامقابلہ منتخب ہوگئے، اس پر تو تعجب ہے۔
پی ٹی آئی الیکشن کمشنر نے عدالت میں بیان دیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن میں پورے ملک سے 15افراد بلامقابلہ منتخب ہوئے، الیکشن کمیشن نے یہ قرار دیا کہ سابقہ پی ٹی آئی الیکشن کمشنر جمال انصاری کو کیسے ہٹایا گیا کوئی دستاویز نہیں لگایا گیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی کے انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تھے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ پہلے تین پینل تھے پھر اعلان ہوا کہ سب لوگ دستبردار ہوگئے اور انتخاب بلا مقابلہ ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں تو مقابلے ہوتے ہیں اور لوگ ٹکٹ کے لیے لڑائیاں کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیاز اللہ نیازی کون ہیں کیا وہ عدالت آئے ہیں؟ نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سب کا بلا مقابلہ متفق ہونا کیا عجیب اتفاق نہیں؟ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ تمام عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے اصل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلا کے سامنے تین سوالات رکھ دیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کا ذمہ فیڈرل الیکشن کمشنر کو سونپا گیا، حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد میں چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی کا لفظ کیوں لکھا گیا، کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دیگر چھ صوبائی الیکشن کمیشن ممبران نے دستخط کیے اور اگر دستخط کیے گئے تو ان کے دستاویزات کہاں ہیں، اگر دستخط نہیں کیے گئے تو کیا وجوہات ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی۔ الیکشن کمیشن کا عملہ، پی ٹی آئی وکیل حامد خان، بانی رہنما پی ٹی آئی اکبر ایس بابر، بیرسٹر گوہر، ایڈوکیٹ شعیب شاہین، نیاز اللہ نیازی اور سینیٹر ولید اقبال بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا تو کافی اچھا آئین ہے اور اس میں تمام چیزوں کا تذکرہ ہے، پی ٹی آئی کا مستقل سیکریٹریٹ کہاں پر ہے۔ وکیل پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ اسلام آباد کے جی ایٹ فور میں پی ٹی آئی کا مستقل سیکریٹریٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اپنے آئین میں چیئرمین کے الیکشن 2سال میں کرانے کا تذکرہ ہے، کیا اسدعمر نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عمر ایوب سیکریٹری کس طرح تعینات ہوئے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ اسدعمر کو نکالا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جب انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے اس میں کتنے ممبران تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نا ہمیں علم ہے ناہی ہمیں بتایا گیا، الیکشن خیبر پختونخوا میں کہاں ہوئے۔
نیاز اللہ نیازی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ رانوگھڑی میں کرکٹ اسٹیڈیم میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ رانوگھڑی کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا، یہ تو چھوٹا سا گائوں ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ممبران کو علم تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن رانوگڑھی میں ہوں گے، پی ٹی آئی ممبران کو کیسے پتہ چلے گا کہ کہاں جائیں ووٹ دینے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو یہ نہیں بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کہاں ہونا ہیں جبکہ پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ہم نے واٹس ایپ کے ذریعے ممبران کو مطلع کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ پر کیا کوئی ایسا کاغذ موجود ہے جس سے علم ہوکہ ممبران ووٹ ڈالنے کہاں جائیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ ہر صوبے میں پی ٹی آئی کے ممبران ہیں، ممبران نے تو ووٹ ڈالنے پنجاب اور سندھ سمیت ہر صوبے سے آنا ہے۔
وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ہمارے پاس ویڈیو ہے چلا لیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آئینی عدالت ہے، ویڈیو باہر جا کر چلائیں۔ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ہمارے پورے ملک میں 8لاکھ 37ہزار95 ممبران ہیں، جس پر جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ کیا 8لاکھ ممبران کو علم تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کہاں ہوں گے۔
نیاز اللہ نیازی کی جانب سے جواب دینے کی کوشش پر چیف جسٹس نے نیاز اللہ نیازی کو وکیل کے ذریعے بات کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ چیف جسٹس نے نیازاللہ نیازی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ وکیل نہیں ہیں بلکہ آپ صرف فریق ہیں، آپ الیکشن کمشنر ہیں اور بتائیں آپ کے وکیل کون ہیں۔ نیازاللہ نیازی نے جواب دیا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر انہیں ہی سنیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرنے اور جمع کرانے کا کیا طریقہ کار ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن میں ریٹرننگ افسران کون تھے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 19جون 2017 کو انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے جس پر وکیل نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ 8جون 2022کو انٹراپارٹی الیکشن ہوئے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 2022کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ 8جون 2022 کے انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس کیا لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج ہے ابھی تک؟ وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے جواب دیا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عمل کیا اس لیے لاہور ہائیکورٹ میں کیس غیرموثر ہوگیا جبکہ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے بانی پی ٹی آئی کو چیئرمین شپ سے ہٹایا، ہم نے لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن اور چیئرمین شپ کے کیسز کو یکجا کرنے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب لاہور ہائیکورٹ کے 5رکنی بینچ کے سامنے کیس زیر التوا ہے تو دوسری ہائیکورٹ کیوں گئے۔ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے پی میں ہوئے اس لیے پشاور ہائیکورٹ گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل علی ظفر نے کہا لاہور ہائیکورٹ میں درخواست زندہ رکھی جائے، کبھی ایک کورٹ جاتے ہیں پھر دوسری کورٹ جاتے ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے دلائل میں کہا کہ ہمیں صرف کے پی میں سیکیورٹی دی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو چاہتے ہیں آپ کا انتخابی نشان بنتا ہے تو فوری ملنا چاہیے، اپنی مرضی سے جہاں سے چاہیں گے خریداری کریں گے تو نظام خراب ہوگا، کبھی ایک کورٹ کبھی دوسری کورٹ، ایسا نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات سے متعلق فیصلہ 12 دنوں میں کیا، صدر، الیکشن کمشنر اور صوبائی ایڈوکیٹ سمیت سب خوش تھے، لاہور کو آپ نے کہا پانچ رکنی بینچ بنائیں اور انہوں نے بنا دیا، لگتا ہے آپ نے اپنے پاں پر خود کلہاڑی مار دی، ایک ہی کیس دو ہائیکورٹس میں لے کر کیوں گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلال ناصر چیمہ سابقہ سیکریٹری جنرل اور چوہدری نجم آفتاب شیخوپورہ کے عہدیدار ہیں، کیا ان لوگوں نے ذاتی حیثیت میں درخواست دی یا تحریک انصاف کی طرف سے آئے۔ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ دونوں نے انفرادی حیثیت میں چیلنج کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو، ایک ہائیکورٹ میں رٹ آئے اور ایک ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل آئے تو کسی کو برقرار رہنا ہے۔
وکیل الیکشن کمشنر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کمشنر کیسے تبدیل ہوا الیکشن کمیشن لاعلم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہیں ایسا نا ہوکہ ایک نئی درخواست آجائے ہم 8جون 2022 کو منتخب ہوئے تو پھر کیا ہوگا، آپ کا کافی پرانا جھگڑا لگ رہا ہے، جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی اس وقت کیوں الیکشن نہیں کرائے، کیا پی ٹی آئی کو الیکشن کمشن نے اس وقت ریلیف دیا جب وہ حکومت میں تھی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی 10اپریل 2022 تک حکومت میں تھی اور پی ٹی آئی کو کورونا کی وجہ سے ایک سال کی مہلت دی گئی کہ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا دیگر پارٹیز کے ساتھ بھی الیکشن کمیشن نے یہی رویہ رکھا؟ کیا باقی سیاسی جماعتوں کو بھی دو سال کی مہلت دی گئی؟ پی ٹی آئی کے لیے کیا الیکشن کمیشن کا رویہ سخت ہوگیا ہے، الیکشن کمیشن نے پہلے رحم دلی کا مظاہرہ کیا۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کا کنڈکٹ دیکھنا چاہتے تھے، ایک اعتراض ہے کہ سات لوگوں کا بورڈ نہیں بنا اور ایک اعتراض ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کہاں ہوئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نئے چیئرمین کو عمر ایوب نے منتخب کیا لیکن عمر ایوب کے پاس ایسا کوئی اختیار ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن کو اسدعمر کے بجائے عمر ایوب کے سیکریٹری جنرل منتخب ہونے کی اطلاع نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک تو نہیں کیا گیا، ہر پارٹی کو اختیار ہے کہ اپنی جماعت کو ووٹ دے، اسی طرح ہر ممبر کو اختیار ہونا چاہیے اپنے پسندیدہ امیدوار کو پارٹی میں ووٹ دے، ایک اہم بات یہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ اس وقت اٹھایا جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی، سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے آمریت نہیں ہونی چاہیے، کہیں غیر مساوی سلوک تو نہیں کر رہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہم نے 13جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے وہ جماعتیں بھی کل ہمارے سامنے آجائیں، جب چیئرمین بلامقابلہ منتخب ہوگئے تو ووٹوں کا معاملہ کہاں سے آگیا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ اسد عمر آج بھی پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل سوال دو دسمبر کے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا ہے، کچھ چیزیں تو تکنیکی ہیں اصل چیز جمہوریت ہے، جمہوریت ملک میں بھی ہونی چاہیے جمہوریت سیاسی جماعتوں میں بھی ہونی چاہیے، پہلے ڈیکلریشن دکھائیں کہاں کہا گیا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن درست ہے، نتخابی نشان کا تذکرہ آئین میں نہیں بلکہ الیکشن ایکٹ میں ہے، دھرنا کیس میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کوئی شق کاسمیٹک ہے، پھر بعد میں الیکشن کمیشن نے موقف تبدیل کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم الیکشن کروانا چاہتے ہیں، عام طور پر ہفتہ کو کیس نہیں سنتے لیکن آپ کیلئے اتوار کو بھی بیٹھنے کے لیے تیار ہیں، کل تحریک انصاف کے وکیل سنیں گے۔