اسلام آبا د(سی این پی)تحریک انصاف کو سپریم کورٹ سے بھی بلے کا نشان نہ مل سکا،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اوراکبر ایس بابر کی درخواست منظور کرلی ،عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔متفقہ طور پر فیصلہ سنایا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
قبل ازیں تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر اپیل پر براہ راست سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے 6 سے 7 گھنٹے طویل سماعت کی
حامد خان کے بلانے پر بیرسٹر علی ظفر دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 2 سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا۔
وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اس کے ارکان ہے اس لیے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں
پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہوسکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے
جسٹس فائز نے کہا کہ پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ یا تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر میں جمہوریت چاہیے باہر نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے،ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں؟
اچیف جسٹس نے ہدایت دی کہ جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہوگا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس کی یا کاغذات نامزدگی کا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیس کیش میں وصول کی گئی، اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کے لیے 20 دن کا ٹائم دیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ عمران خان نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے تحریک انصاف دستاویزات کے معاملے میں کافی کمزور ہے، ہم جو دستاویزات مانگتے ہیں آپ کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا، پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کیا پی ٹی آئی کے ممبر ہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے 2009 سے ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔
نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ میری تزلیل کر رہے ہیں، یہ باتیں نہ کریں نئے چہرے کیسے آئے، آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، میرا بیٹا آپ کے پاس لا کلرک کا انٹرویو دینے آیا، آپ نے اُس سے بھی پی ٹی آئی سے متعلق سوالات پوچھے۔
اِس پر چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا ہم انہیں نوٹس جاری کریں؟ اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، ہم تو سوال سمجھنے کے لیے پوچھتے ہیں، اگر ایسا رویہ رکھنا ہے تو ہم کیس ہی نہیں سنتے، مجھے معلوم ہی نہیں کہ اِن کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر آپ الزام لگا کر اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے نیاز اللہ نیازی کے رویے پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے اظہارِ معذرت کیا، دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہوگا، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، اگر ایک ووٹ بھی نہ ڈلے تو سینٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین، سیکریٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا؟ آخر مسئلہ کیا تھا؟
اس دوران بیرسٹر علی ظفر نے مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو آج جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے، ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتا ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کریں گے، ہوسکتا ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ سر حالات بہت سنگین ہیں، چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے، عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں، اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کا آگاہ کیا کہ سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پلیز یہاں بات نہ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہہ دیا ہے، وہ معاملہ دیکھ رہے ہیں، ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں۔
سماعت جاری کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پارٹی کی جانب سے نہیں دی گئی، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ نے لکھا کہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج کیا لیکن اس پر عمل بھی کر دیا، لاہور ہائی کورٹ میں فل بنچ بنا ہوا تھا اس لیے وہاں سے رجوع کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا الیکشن پشاور میں ہوا وہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں مانا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک درخواست زیرالتوا ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل آپ کو غلط معلومات دی گئیں کہ میں نے التوا مانگا تھا، میں پہنچا تو بنچ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا، بنچ لگتا تو درخواست غیرمؤثر ہونے پر واپس لے لیتا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر دو ہائی کورٹس بیک وقت کیس سننے کے لیے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے، ایک ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر التوا ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ، اگر خیبر پختونخوا کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا
علی ظفر نے کہا بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ عمران خان ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟ علی طفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا
علی ظفر نے کہا کہ ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کر سکتے، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ آپ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، کیا اس وقت اور ان کے قانون میں فرق نہیں ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں مسئلہ ہو تو کہاں رجوع کیا جا سکتا ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے کہ سول کورٹ سے رجوع کیا جائے
الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات نہیں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو غلط قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عہدیداران کے بلامقابلہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف نے انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی، الیکشن درست ہو تو نشان کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے، آپ سوچ کر جواب دینا چاہیں تو مخدوم علی خان کے بعد دوبارہ سن لیں گے۔
سماعت کے دوبارہ آغاز کے بعد بیرسٹر گوہر کے گھر مبینہ چھاپے کا معاملہ زیر بحث آیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے آئی جی کو بھیجا تھا، وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تو اچھی بات ہے۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں؟وکیل علی ظفر نے بتایا کہ آئی جی اسلام آباد آئے تھے شاید باہر گئے ہیں، آجائیں گے۔
عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کیا معاملہ ہوا؟ آپ بیرسٹرگوہر کے گھر کیوں گئے؟
آئی جی نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کچھ ہوا ،پولیس ان کے گھر گئی ہے، پولیس کی ایک پارٹی نے ان کے گھر میں ریڈ کیا،پولیس گئی لیکن بیرسٹر صاحب کے گھر کا پتہ چلنے ہر واپس آگئی، پولیس اشتہاری ملزمان کی تلاش کے لیے گئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ذاتی طور پر جائیں، ان کی اہلیہ اور جس سے معلومات لینی ہو لے کر تحریری رپورٹ دیں،اگر بیر سٹر گوہر مطمئن نہ ہوں تو آگاہ کیجئے،ہر شہری کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے بیرسٹر گوہر سے سوال کی کہ کیا آپ مطمئن ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ابھی تک کے احکامات سے مطمئن ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بیرسٹر گوہر مطمئن نہ ہوئے تو مزید ایکشن بھی لیں گے، آپ کے گھر کون کون تھا؟بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ میری اہلیہ اور بچے گھر پر تھے۔
وکیل حامد خان نے دلیل دی کہ تاثر ہے کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا جاتا، ہمارے کارکنان کو ہراساں کیا جا رہا تھا، ہمارے ہزاروں کارکنوں اور خواتین کو گرفتار کیا گیا، ہراساں کرنے کی وجہ سے ہی پشاور میں انتخابات کروائے۔
جسٹس قاضی نے کہا کہ کیس کرنے کے لیے وکیل کی ضرورت ہے کارکنوں کی نہیں، اگر ہراساں کیا جارہا تھا تو پھر اپ سیکیورٹی کو خط نہ لکھتے، آپ چپکے سے انتخابات کروا دیتے۔
جسٹس قاضی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے؟ حامد خان نے بتایا کہ دونوں کیسز الگ ہیں، الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کر سکے گا؟ کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟ معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے۔حامد خان کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ 14 لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کے حقوق کیسے متاثر ہوتے؟ حامد خان نے بتایا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے
جسٹس قاضی نے کہا کہ آپ نے خود مانا تھا کہ اکبر بابر بانی رکن ہیں، حامد خان نے جواب دیا کہ بانی رکن اپنی پارٹی کےخلاف کیسے عدالتوں میں جا سکتا ہے، اکبر بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا۔
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے، پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر بابر بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا پشاور ہائ یکورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ معاملہ لاہور میں بھی زیرالتوا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ بظاہر ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جوب الجواب کا آغاز کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کہتی ہے الیکشن کمیشن دوہرا معیار اپنا رہا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے کل 13 سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اے این پی کو شاید لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے دس مئی تک وقت دیا ہے،مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اے این پی کے پانچ سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے، اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔
دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے فیصلہ محفود کرلیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، مجھے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرنی ہے، ہمیں سانس لینے دیں۔
بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اکبر ایس بابر کی درخواستیں سماعت کے لئے منظور کرلیں اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔