اسلام آباد(سی این پی)سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے وکلا سے سوالات پر تحریری جوابات طلب کرلیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس میں بہت محتاط چلنا ہوگا،کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو
شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ بھی 50سال تک بطور عدالتی نظیر استعمال ہو سکتا ہے،ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے، قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے، ، ہم بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز نہیں کر سکتے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد؟ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم نے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابقہ رجسٹرار نے جواب جمع کروادیا ہے، کیا کہ اب مقدمہ کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا۔اگر یہ طے نہیں ہوتا کہ الزامات سچے ہیں یا جھوٹے، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں، ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات پبلکلی (اعلانیہ) لگائے گئے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جن پر الزامات لگایا گیا ہم نے ا±ن کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں؟حامد خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف پہلی کارروائی کو کالعدم قرار دیاجائے، اس کے بعد اس معاملے پر کمیشن بنا کر انکوائری کرائی جائے۔کیا یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس واپس نہیں بھیجا جا سکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، بطور جج بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ نہیں دیکھ سکتی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم ہوئی تو الزامات درست تصور ہوں گے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی نے شہرت حاصل کرنے کے لیے تو تقریر نہیں کی ہوگی۔کیا کہ آئینی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ واپس بھیجا جا سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کے معاملے کا جائزہ نہیں سکتی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی چیف جسٹس کی بات تسلیم کرنے اور کسی جج کی بات تسلیم نہ کرنے کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے، قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ہے۔ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے، قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے، کیا آپ نہیں چاہتے سچ سامنے آنا چاہیے، ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں؟
جسٹس (ر) انور کانسی کے وکیل وسیم سجاد روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کیس ریمانڈ بیک کرنے سے آئین نہیں روکتا، عدالت مکمل انصاف کے دائرہ اختیار میں بھی جا سکتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا، کیا جب کونسل ازخود کارروائی کرے تو بھی انکوائری کرنا ہوگی؟چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کونسل نے خود کیسے کارروائی کا آغاز کیا؟ ہمیں رجسٹرار آفس کا نوٹ دکھائیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ سیکریٹری کونسل کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے، کونسل نے ہی سیکرٹری کونسل کو کہا ہو۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کونسل میں کتنی مرتبہ کیس لگا؟ حامد خان نے جواب دیا کہ صرف ایک مرتبہ کیس لگا جس میں شوکت صدیقی کو بلایا گیا تھا۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ دیکھیں تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ شوکت صدیقی کو موقع نہیں دیا گیا، 2 ماہ سے زیادہ کارروائی چلی، ان کے جوابات کا جائزہ بھی لیا گیا۔
۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک جج کو ہٹانا اتنا ہی آسان ہے تو یہ عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرے کا سبب ہے، عوام کو سچ جاننے کا مکمل حق ہے، یہ عوامی معاملہ ہے، یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہم کونسل کو بھیج سکتے ہیں یا نہیں۔
بعد ازاں عدالت نے حکمنامے میں کہا گیا کہ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید اور برگیڈیئر عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنا جواب جمع کرایا۔ سپریم کورٹ نے تمام فریقین کے وکلا تحریری معروضات جمع کرا سکتے ہیں۔حکمنامے میں عدالت نے وکلا سے مندرجہ ذیل سوالات پر تحریری جوابات طلب کرلیے ہیں،کیا انکوائری کے بغیر جج کو برطرف کیا جا سکتا ہے؟کیا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے؟کیا تقریرکا مس کنڈکٹ تسلیم کرلینے پرانکوائری کی ضرورت باقی تھی؟