راولپنڈی (سی این پی)بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سائفر کیس میں ایک گھنٹہ 20 منٹ طویل 342 کا بیان ریکارڈ کرا دیا، جس میں عمران خان نے کہا کہ سائفر وزیراعظم آفس میں تھاسکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکرٹری، پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری پروٹوکول پر آتی ہے جو وزیراعظم ہاوس کی سکیورٹی کو دیکھتے ہیں، بانی چیئرمین نے مزید کہا کہ میرے ساڑھے تین سال کے دوران یہ واحد ڈاکومنٹ ہے جو وزیراعظم افس سے مسنگ ہوا، سائفر مسنگ ہونے پر ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ انکوائری کی جائے، وہ واحد موقع تھا جب میں ملٹری سیکٹری سے ناراض بھی ہوا، میرے اے ڈی سی میں سے ایک نے جنرل باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا، ملٹری سیکرٹری نے انکوائری کے بعد بتایا کہ سائفر کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملا، انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو سازش کے ذریعے ہٹایا گیا، جنرل باجوہ اور امریکی سیکرٹری اف سٹیٹ ڈونلڈ لو سازش میں شامل تھے
میری حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021 میں ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض کو تبدیل کیا، جنرل باجوہ نواز شریف اور شہباز شریف کی ملی بھگت سے یہ سب ہوا کیونکہ انہوں نے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع کا وعدہ کیا تھا،انہوں نے مزید کہا کہ حسین حقانی کو امریکہ میں جنرل باجوہ کی لابنگ کے لیے 35 ہزار ڈالر کی ادائیگی کر کے ہائر کیا گیا ،اپریل میں حسین حقانی نے ٹویٹ کیا کہ عمران خان اینٹی امریکہ جبکہ جنرل باجوہ پرو امریکہ ہے،ہمارے اتحادی ہمیں چھوڑ جائیں اس کے لیے جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی کو استعمال کیا،آئی ایس آئی نے ہمارے لوگوں کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا اور کہا کہ ان کا مستقبل نون لیگ کے ساتھ ہے،میں نے جنرل باجوہ سے مل کر اس سازش کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔
عمران نے مزید کہا کہ میں عوام کے پاس گیا کیونکہ سائفر سازش صرف وزیراعظم کی توہین نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کی توہین تھی ،22 اور 23 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں او آئی سی کانفرس تھی ،او آئی سی کانفرس ختم ہونے پر میں نے عوام کو سائفر کے بارے بتانے کا فیصلہ کیا ،ہمارے اتحادیوں نے مجھے پیغامات بھیجے کہ حکومت چھوڑ دو ،ہمارے اتحادیوں کو ایک ایک کر کے امریکی سفارتخانے لے جایا گیا اور ملاقاتیں کروائی گئیں کے پی میں ہمارے وزیر عاطف خان کو پشاور امریکی کونسل بلایا گیا ،عاطف خان کو کہا گیا کہ اگر عدم اعتماد آیا تو آپ نے وزیر اعلی کے پی محمود خان کے خلاف ووٹ دینا ہے،
عمران خان نے کہا کہ اس دوران میرے باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئی،باجوہ سے کہا اگر حکومت گرائی گئی تو پاکستانی معیشت ڈوب جائے گی،میں نے باجوہ سے کہا کہ سیاسی عدم استحکام آنے والی حکومت نہیں سنبھال سکے گی،میں نے باجوہ سے متعدد بار پوچھا آئی ایس آئی میری حکومت کے خلاف سرگرم ہے،اگر سازش کے تحت حکومت گرائی تو میں عوام کے پاس جاو¿ں گا ،باجوہ نے پھر جھوٹ بولا کہ وہ چاہتا ہے کہ میں حکومت قائم رکھوں ،شوکت ترین نے بھی باجوہ کو سمجھایا کہ سیاسی عدم استحکام سے معاشی بھال کھڑا ہوا گا،عمران خان نے مزید کہا کہ 27 مارچ کو پریڈ گراونڈ میں عوامی جلسے میں بتایا کہ پاکستان کو خطرات ہیں لیکن میں اپنے الفاظ میں محتاط تھا کسی ملک کا نام نہیں لیا ،جلسے میں جو کاپی لہرائی وہ سائفر کی پیرا فیز کاپی تھی،میں نے باجوہ کو بتایا اگر حکومت گرائی تو میں عوام کو سارا پلان بتا دوں گا ،جنرل ندیم انجم میرے پاس آئے اس نے کہا باہر سائفر سے متعلق کوئی بات نہیں کرنا ،سائفر صرف باجوہ کے لیے تھا اور حکومت گرانے کی کسی کے پاس اہلیت نہیں تھی
،جنرل باجوہ صرف واحد طاقت تھی جس نے میری حکومت گرائی ،سندھ ہاوس میں ہمارے ایم این ایز کو خریدنے کے لیے 20، 20 کروڑ قیمت لگائی گئی ،امریکی سفارتخانے اور ایجنسیز کے کہنے پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں سائفر پر بات کرنے سے اجتناب کیا ،پاکستان عوام نے جو رد عمل دیا وہ تاریخ میں کبھی بھی نہیں ہوا،لوگ بڑی تعداد میں نکلے اور میری حمایت کی ،پی ڈی ایم حکومت میں ضمنی انتخابات کے دوران ہم نے 30 سے زائد نشستیں حاصل کی،22 اگست کو صدر ہاوس میں میری جنرل باجوہ سے پھر ملاقات ہوئی، اس وقت معیشت ڈوب رہی تھی مہنگائی ریکارڈ 38 فیصد پر تھی ،گروتھ ریت 6 اعشاریہ 17 فیصل سے گر کر منفی میں چلی گئی ،جنرل باجوہ نے ملاقات میں کہا سائفر پر بات نہیں کرنی اور میر جعفر اور میر صادق کہنا بند کرو،آپ کو دو تہائی اکثریت دیں گے 80 فیصد آرمی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے،اگر تم نے سائفر پر بات کی تو 30 سیٹوں تک محدود کر دیں گے اور کیسز بھی بھگتو گے
انہوں نے کہا کہ باجوہ نے کہا تمہارے اوپر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو ہو گا،میری حکومت گرنے کے بعد پاکستان میں تاریخ کا بدترین معاشی بحران پیدا ہوا،جنرل باجوہ نے مدت ملازمت میں توسیع کے لیے شہباز شریف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ میری حکومت گرائیں گے،میری حکومت گرنے کے بعد شہباز شریف کے 24 بلین کرپشن کیسز معاف کئے گئے ،پی ڈی ایم حکومت پاکستان کے لیے ثابت کن ثابت ہوئی ،وزارت عظمی کے دوران رجیم چینج کی انکوائری کا مطالبہ کرتا رہا ،کابینہ نے جنرل طارق کو سائفر انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا ،کیس کی جانچ پڑتال کے بعد جنرل طارق نے ہاتھ کھڑے کر دیئے کیوں کہ آرمی چیف پر انگلی اٹھتی تھی
عمران خان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں سائفر کو مداخلت قرار دیا گیا اور ڈی مارش کا فیصلہ ہوا،سائفر پرانکوائری چیف جسٹس آف پاکستان کو سائفر بھیجا گیا ،سائفر انکوائری پر تمام لوگ آرمی چیف سے ڈرے ہوئے تھے ،کسی نے انکوائری کی ہمت نہ کی ،جنرل باجوہ نے مجھے اور شاہ محمود قریشی کو دھمکی دی کہ انسان بن جاﺅ،پی ٹی آئی کو جس طرح کرش کیا گیا ہمارے لیڈر شپ ابھی تک سفر کر رہی ہے،سائفر کیس میرے خلاف میرا منہ بند کرنے کے لیے بنایا گیا،میری جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو پر تنقید امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کو بری لگی،میری پارٹی نے طاقت ور آرمی چیف کے خلاف اسٹینڈ لیا،اگر مجھے سزا دی گئی تو کوئی بھی وزیراعظم کبھی بھی پاکستان مفاد کے حق میں کھڑا نہیں ہو گا،کوئی بھی وزیراعظم امریکہ کی غیر منصفانہ مطالبات کے خلاف کھڑا نہیں ہو گا ،اور میں گواہ ہیں کہ کس طرح ایک فون کال پر پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکا گیا ،دہشت گردی کی جنگ میں 85 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئی ،آصف زرداری اور نواز شریف کے دور حکومت میں 400 ڈرون حملے ہوئے،تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں کہ ایک اتحادی ملک اپنے ہی اتحادی ملک پر بمباری کرے ،نواز شریف اور آصف زرداری نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف ایک لفظ مذمت کا نہیں کہا ،نواز شریف اور آصف زرداری کو ڈر تھا کہ امریکا ان کو اقتدار سے باہر کرے گا،سائفر کیس تعین کرے گا کہ کوئی بھی پاکستانی وزیر اعظم ملکی مفاد کے لیے کھڑا ہو گا یا نہیں