اسلام آباد(سی این پی) سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی اور کہا ہے کہ جب کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی۔یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا گیا جس میں عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیل مشروط طور پر منظور کرلی، فیصلے میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے اختلاف کیا۔
حکومتی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد درمیان میں مستعفی ہو جائے تو کیا ہوگا؟عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بھارت میں کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سارہ مسئلہ چیف جسٹس کے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا ہے، ججز کے خلاف شکایت نمٹانا صرف چیئرمین کا نہیں بلکہ کونسل کا کام ہے، پچھلے دنوں بھی چیف جسٹس نے کہا کہ 100 سے زیادہ شکایت زیر التواءپڑی ہیں۔اکرم شیخ نے کہا کہ جب کونسل اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ کہ ایک بار کونسل شکایت پر نوٹس کرچکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہوسکتا ہے؟اکرم شیخ نے کہاکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جج ریٹائرڈ ہو جائے اور 10 سال بعد کوئی شکایت اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کردی جائے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ عافیہ شہربانو کیس جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کا جھگڑا نہیں ہے، عافیہ شہربانو کیس میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے کیخلاف شکایت غیر مو¿ثر ہوجانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے، اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت غیر مو¿ثر قرار دے چکی تو کیا کیا جائے؟
دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہاکہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے، ضروری نہیں کہ کوئی جج اسی وجہ سے استعفیٰ دے کہ اس پر لگے الزامات سچ ہیں، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کرسکنے پر بھی استعفی دے سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہات بیان نہیں کرنی چاہئیں؟خواجہ حارث نے کہا کہ اگر تو قانون جج کو استعفے پر وجوہات بتانے کا پابند بناتا ہے تو دینا لازم ہے، آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہوچکا ہے تو کونسل صدر کو سفارش کیا کرے گی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک دفعہ شروع کی گئی کارروائی کیا ایک دم سے ختم کردیں؟خواجہ حارث نے کہا کہ مثال کے طور پر 11 تاریخ کو جج استعفی دے جائے اور 12 تاریخ کو کونسل کارروائی کرے تو جج تو موجود ہی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہیں کونسل کارروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہوگی، نتیجہ کیا ہوگا یہ بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہے گا کہ خود پر لگے الزامات سے بری ہوکر گھر جائے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص انتقال کر جائے تو اس کی سزا ختم ہوجاتی ہے۔جسٹس جمال نے کہا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کرکے کہ اس نے جج کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کونسل کو کاروائی سے روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری سوگ شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کارروائی سے روکا تھا، اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی ایس ایچ او جج کے خلاف مقدمہ درج کرے گا تو کیا وہ جج آزادانہ فیصلہ دے سکے گا؟
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ عدالتی معاون ہیں یا وکیل صفائی؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمہت تو مجھ پر کوئی اور ہے مگر میں عدالتی معاون ہوں، ہمیشہ ایک ہی موقف رہا ہے کہ جو آئین و قانون میں درج ہے اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ بعدازاں عدالتی معاون خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل میں کہا کہ جج کے دوران سروس کیے گئے مس کنڈکٹ پر کارروائی کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی اختیار ہے عدلیہ،عوام اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے عدلیہ بنیادی حقوق کی ضامن ہے اس لیے اسے آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر احتساب سے اجتنات برتا جائے تو اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی، عدلیہ کی آزادی کے لیے متحرک ہونا چاہیے، آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے، ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ضروری نہیں کہ ان کی برطرفی کی سفارش کی جائے، اگر کوئی جج ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو اسکا علاج ممکن ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن بیماریوں کا علاج ممکن ہے ان کی بنیاد پر کونسل جج کو کچھ عرصے کی رخصت دے سکتی ہے ضروری نہیں برطرف کرے، وقت کی پابندی نہ کرنے پر جج کے خلاف شکایت ہو تو کونسل برطرفی کے بجائے تنبیہ کر سکتی ہے، کونسل کے سامنے شکایت آ جائے تو اس پر کوئی نہ کوئی رائے دینا لازم ہے، جج ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر ،شریعت کورٹ کے ججز یا ٹریبیونلز جیسے آئینی عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ جج کے اوپر لگے الزام پر کونسل اپنی رائے دے تاکہ آئینی عہدوں پر تعیناتی ہوسکے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اس احتساب سے سپریم کورٹ کا وقار کم نہ ہو، ججز کے خلاف کارروائی کوئی اور ادارہ نہیں کرسکتا ، جج کے خلاف کارروائی اس کے حاضر سروس ہونے کے دورانیے سے متعلق شکایت پر ہو سکتی ہے، عوامی اعتماد کے لیے سپریم جوڈیشیل کونسل کو شفافیت سے کام کرنا چاہیے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہاکہ مثال موجود ہے کہ ایک جج کے خلاف آرٹیکل 209 کی کارروائی شروع کی گئی اور ان کے استعفیٰ پر ختم کر دی گئی۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ معاملہ 2019ئ کا ہے تو اٹارنی جنرل آفس نے 5 سال تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی جج کے خلاف کارروائی دوبارہ کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ کونسل کا ہوگا۔بعدازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔ عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جو سنادیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔