پشاور(سی این پی)پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست خارج کردی۔ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
یرسٹر ظفر نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو درخواست کی کہ یہ سیٹیں ہمیں دے دیں، جیسے ایک خالی زمین ہو اور کوئی آئے اس پر قبضہ کرلے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ آپ قبضے پر زیادہ زور دے رہے ہیں, یہ تو الیکشن کمیشن نے دی ہیں۔
علی ظفر نے دلائل دیے کہ اگر ایک جماعت الیکشن نہ لڑے تو وہ پھر بھی پولیٹیکل پارٹی ہوتی ہے ، یہ ضروری نہیں کہ وہ الیکشن لڑے، سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہے
جسٹس سید اشد علی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی میں فرق اتنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس نشان نہیں ہے اور سنی اتحاد کونسل کے پاس نشان ہے، دونوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے سے آپ نے اپنا کیس کمزور نہیں کیا؟ آپ کو پتہ تھا کہ انھوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد آپ کے پاس پھر بھی وقت تھا آپ انٹرا پارٹی الیکشن کر لیتے، آپ نے نہیں کرایا۔
بیرسٹر ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کیا لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے اسکو مانا نہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پوچھا کہ آپ کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں تو پھر دوسروں کو بھی کیوں نہیں دی جاسکتیں؟
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ قانون میں یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے کو نشستیں ملیں گی، یہ نہیں کہ ایک سیاسی جماعت باہر بیٹھی ہو اور پھر ا?زاد ا?کر اس کو جوائن کریں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ باپ پارٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواستیں بھی مماثلت رکھتی ہیں، سب میں ایک ہی درخواست گزار ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مبشر منظور نے دلائل دیے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو پھر وہ پارلیمنٹری پارٹی بن گئی ہے
، پولیٹکل پارٹی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو، یہ نہیں کہ اسی الیکشن میں لازمی حصہ لیا ہو، اگر 2018 میں بھی حصہ لیا تو پھر بھی وہ پولیٹکل پارٹی ہے۔
تمام وکلاءکے دلائل مکمل ہونے پر پانچ رکنی بینچ نے مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کو خارج کردیا۔