عدت نکاح کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ،27 جون کو سنایا جائیگا

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو 27 جون کو سنایا جائے گا جبکہ کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے عدت نکاح کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی اور مرکزی اپیلوں کی درخواست پر سماعت کی۔بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ میں سزا معطلی کی درخواست پر 7 منٹ دلائل دوں گا، شکایت کنندہ کو اس سے کم وقت میں بھی دلائل دینے چاہیے، آج مرکزی اپیل اور سزا معطلی کی اپیل زیر سماعت ہے، میری ذمہ داری عدالت کو بتانا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کون ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ ان اپیلوں پر پہلے 15 سے زائد سماعتیں 3 ماہ میں ہوچکی ہیں، اس کیس میں کبھی شکایت کنندہ اور کبھی پراسیکیوشن نے کہا کیس پڑھنا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس میں کچھ نہیں، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیسے دیتے ہیں۔

بعد ازاں سلمان صفدر نے کہا کہ اپیل کنندہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ ہیں، الیکشن سے قبل عمران خان کو سزا سنائی گئی، عمران خان کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے ہیں، عمران خان کے کیسز سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ایسی یونیک پراسیکیوشن میں نے آج تک نہیں کی، متعدد کیسز عدالتوں نے اڑا دیئے، سائفر کیس ،توشہ خانہ کیس ،پھر نکاح کیس میں سزا دی گئی جیسے سینما کی اسکرین کا ٹائم، مجھے اس کیس کے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے، سائفر کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا تو عدالت نے کہا مرکزی اپیل سنیں یا سزا معطلی کی، میں نے کہا مرکزی اپیل ورنہ میرے لیے آسان تھا سزا معطلی پر دلائل دیتا۔
بشری بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ کیونکہ یہ پرائیوٹ درخواست تھی اس کے لیے دو گواہان کا ہونا ضروری تھا اس وجہ سے اس میں فرد جرم نہیں لگی، سلمان صفدر نے کہا کہ جو کیس یہاں کا بنتا ہی نہیں تھا اس میں سزا دے دی گئی، اسلام آباد میں الزام 496 بی کا تھا مگر وہ دفعات ختم ہوگئیں، جب اسلام آباد کا کوئی الزام ہی نہیں تھا تو کیس کو لاہور جانا تھا۔

جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ عموماً عدالتیں 5 سال تک کی سزا کو مختصر سزا کہتی ہیں، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 8 سال تک کی سزا کو معطل کروایا ہے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے سپریم کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ سزا معطلی کے لیے مضبوط گراو¿نڈ ہے کہ اپیل کنندہ خاتون ہے، اپیل کنندہ 5 بچوں کی ماں ہے، 496 بی میں کہیں بھی عدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔

اس پر جج نے کہا کہ سپریم کورٹ ججمنٹ کے حوالے سے میرے سوال ہیں، آپ نے جن نکات کی بات کی تھی وہ پانچ رکنی بینچ کالعدم قرار دے چکا ہے، میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون کے مطابق ہوگا، دورانِ عدت اگر خاوند مر جاتا ہے تو کیا خاتون کو وراثت میں ملے گا؟ اس سوال کے حوالے سے مرکزی اپیل پر آپ نے مجھے مطمئن کرنا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس حوالے سے دیگر کیسز وہ ہوں گے جن میں درخواست بروقت ہوگی، دوسرے کیسز میں گواہان کو پیش کرنے کا پورا موقع ملا ہوگا، اس کیس کے پورے تناظر کو بھی دیکھنا ہوگا، سب سے مضبوط گراو¿نڈ ہے کہ 496 بنتا کیسے ہے؟ فراڈ اور دھوکا کس کے ساتھ ہوا ہے؟ عدت کے اندر شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے، 7 سال سزا تو دور کی بات ہے ، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بے ضابطگیاں کی گئی ہیں۔

وقفے کے بعد خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری دلائل دیتے ہوئے سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کر دی۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیس سزا معطلی کا بنتا ہے یا نہیں، اپیل کنندہ کے وکیل نے خاور مانیکا کے لیے جھوٹے کا لفظ استعمال کیا، عدالت میں خاور مانیکا کا پورا انٹرویو نہیں بلکہ کلپ چلایا گیا، خاور مانیکا کا بیٹا موسی مانیکا بھی نجی چینل کو انٹرویو دے چکا ہے، اس انٹرویو میں اس نے کہا بشریٰ بی بی اور عمران خان کے نکاح کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یوٹرن کا لفظ عمران خان کی جانب سے متعارف کروایا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون؟ 7 جنوری کو عمران خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو شادی کے لیے پروپوزل بھیجا ہے، اس موقع پر کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے اقرار یا انکار پر رشتے کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کیا جائے گا، نکاح کے لیے ولی کی اجازت ہونا ضروری ہے۔

خاور مانیکا کے وکیل نے مختلف احادیث کا حوالہ دیا،بعد ازاں خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کی جانب سے مختلف احادیث کا حوالہ دیا گیا۔انہوں نے حوالہ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، قرآن و سنت کے مطابق گواہان کے بغیر نکاح جائز نہیں،خاور مانیکا کے وکیل نے دوران دلائل خدا گواہ فلم کا گانا سنایا،اسی کے ساتھ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف نے دوران دلائل عدالت میں خدا گواہ فلم کا گانا، تو مجھے قبول میں تجھے قبول گا کر سنایا۔

وکیل نے کہا کہ خاتون کی پرائیویسی کے بارے میں بات کی گئی لیکن فیملی کی پرائیویسی کا ذکر نہیں کیا، شکایت کنندہ کی بیوی کو بہلانے والا طلاق دلوانے والا اور عدت میں نکاح کرنے والا جھوٹا ہے یا مفتی سعید؟ کہتے ہیں عورت کا کہہ دینا کافی ہے یہ تو بتائیں عورت نے کہا کب؟ وہ بیان کدھر ہے، بشریٰ بی بی کی جانب سے ایک مرتبہ بھی عدت کے حوالے سے نہیں بتایا گیا۔

اس موقع ہر عدالت نے دریافت کیا کہ پچھلی تاریخ پر میں نے سوال پوچھا تھا کہ آپ کے کلائنٹ کو شادی کا کب پتا چلا؟ وکیل نے جواب دیا کہ خاور مانیکا نے کراس ایگزامن میں بتایا کہ 2 جنوری کو پتا چلا تھا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ تو پھر انہوں نے اسی وقت درخواست کیوں دائر نہیں کی؟ سلمان اکرم راجا نے کہا جب آپ کے کلائنٹ کا چلہ کروایا گیا تو اس کے بعد درخواست دائر کی گئی۔اس پر وکیل نے کہا کہ جی نہیں ایسے حالات نہیں تھے، ایک تحقیقاتی ادارے نے تفتیش کے لیے انہیں گرفتار کیا تھا۔اس پر جج افخل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ کیا شکایت کنندہ پر کوئی پریشر تھا یا دھمکی دی گئی تھی؟ اس حوالے سے پہلے درخواست کیوں نہیں دی گئی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ شریف لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے فیملی معاملات پبلک نہ ہوں۔

خاور مانیکا کے وکیل نے بتایا کہ میں کچھ چیزوں پر ابھی دلائل نہیں دوں گا، اس حوالے سے صورہ طلاق کی آیات بڑی واضح ہیں، جج صاحب کے حوالے سے کہا گیا، تو کیا ان کے خلاف کوئی درخواست دی گئی تھی؟اسی کے ساتھ شکایت کنندہ کے وکیل زاہد آصف نے سزا معطلی کی اپیل پر دلائل مکمل کر لیے۔اسی کے ساتھ عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ایڈیشنل سیشنز جج افضل مجوکا نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔عدالت کی جانب سے سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ 27 جون کو 3 بجے سنایا جائے گا، اس کے علاوہ عدت میں نکاح کیس سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔