اسلام آباد(کامرس رپورٹر) نئے مالی سال 2024-25 کا بجٹ نافذ ہوگیا، جس میں حکومت نے اشرافیہ کو مراعات دے دیں جب کہ تنخواہ دار اور کاروباری طبقے پر ٹیکسز کی بھرمار کردی گئی ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دباو¿ پر نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس ریونیو کا ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جس میں 1700 ارب روپے سے زیادہ کے نئے ٹیکس شامل ہیں۔
نئے بجٹ کے آج یکم جولائی سے لاگو ہونے کے بعد سے شیرخوار بچوں کے ڈبہ بند دودھ ہی نہیں بلکہ دودھ کےعام پیکٹ پر بھی 18 فیصد جی ایس ٹی دینا پڑے گا۔ اسی طرح موبائل فونز کی خریداری پر بھی 18 تا 25 فی صد تک جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے۔
نئے بجٹ میں پیٹرول، ڈیزل اور ہائی اوکٹین پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے لیٹر اضافہ ہو گا۔ لبریکنٹ آئل پر بھی 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی۔ اسی طرح سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2 روپے سے بڑھا کر 4 روپے فی کلو کردی گئی ہے جب کہ بین الاقوامی سفر پر55 ارب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار اور کاروباری طبقے کی آمدن پر 10 فیصد اضافی سرچارج لگا دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی شرح 39 فیصد ، ماہانہ ایک لاکھ روپےآمدن پر پہلے سے دوگنا ٹیکس دینا ہوگا۔ ایسوسی ایشن آف پرسنز کو 44 فیصد جب کہ کاروباری طبقے کو 50 فیصد تک انکم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ، تاہم حاضر سروس اور ریٹائرڈ سول و فوجی افسران کو پراپرٹی کی فروخت یا ٹرانسفر پر ٹیکس استثنا دے دیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کے نئے بجٹ کے مطابق نان فائلرز کی سمز بلاک نہ کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کو 5 سے 10 کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ افغانستان سے پھل سبزیوں کی درآمد ، ٹریکٹرز ، میڈیکل کی تشخیصی کٹ پر 18 فیصد جی ایس ٹی نافذ کردیا گیا جب کہ بلڈرز اور ڈویلپرز کو تعمیرات ، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کی فروخت پر 10 سے 15 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کو مختلف ٹرانزیکشنز پر ٹیکس دینا ہو گا۔