ملک کی ڈورکسی اور کے پاس ہے، مولانا فضل الرحمن

ملک کی ڈورکسی اور کے پاس ہے، مولانا فضل الرحمن

پشاور۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سامنے کوئی اور ہے مگر کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔

پشاور میں تاجر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام ہر شعبہ زندگی سے متعلق لوگوں کی آواز بلند کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی حالت اس وقت نازک ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے امن اور معیشت دونوں ہی انتہائی اہم ہیں۔ قانون سازی دنیا بھر میں جان، مال، اور عزت کے تحفظ پر کی جاتی ہے کہ یہ تحفظ کیسے فراہم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں امن اور معیشت کی کیا حالت ہے؟ جس مقصد کے تحت ملک بنایا گیا، کیا ہم نے اسے حقیقت میں پورا کیا؟ ہر لمحہ ہم اللہ کی نافرمانی کر رہے ہیں، اور اس کی نافرمانی کی وجہ سے آج ملک میں نہ تو امن ہے اور نہ ہی معیشت کی حالت بہتر ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسمبلیوں میں جعلی نمائندے موجود ہیں، ہماری غلامی کی کہانی لمبی ہوتی جا رہی ہے، اور ظلم و ستم کے تحت ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ ٹیکس کی رقم قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہو رہی ہے، پہلے قوم کو اعتماد میں لیں، قوم کا پیسہ قوم پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ سامنے کوئی اور ہے لیکن کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے، ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے، اسے سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف سانس لینے پر ٹیکس نہیں اور موت پر ٹیکس بھی بچ گیا ہے، ملک اس طرح نہیں چلتا، ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں، کبھی معین قریشی آتے ہیں، کون کہاں سے آتا ہے کہاں چلا جاتا ہے، ہمارے وزیر خزانہ بھی ہمارے اپنے نہیں ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ باہر سے آنے والے وزیر خزانہ کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں، ہمارے حکمرانوں نے بیرون ملک انتظامات کر رکھے ہیں، مشکل وقت آنے پر وہ وہاں چلے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کسانوں کے گودام گندم سے بھرے ہوئے ہیں مگر خریدنے والا کوئی نہیں، جب ملک میں گندم موجود تھی تو باہر سے کیوں منگوائی گئی؟

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، جب معیشت ہی نہیں ہوگی تو ملک کیسے کھڑا ہوگا، 20 سے 25 سال بعد اب حالات میں تبدیلی آ رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چین بڑی معاشی طاقت بن رہا ہے، امریکا اور روس کی جنگ میں افغانستان مرکز تھا، چین کی اس جنگ میں پاکستان کو بھی متاثر کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران چین گئے لیکن خالی ہاتھ واپس آئے، چین کے صدر نے پیغام دیا کہ ملک میں استحکام نہیں ہے، مغربی دنیا کا ایجنڈا بدل گیا ہے، ان کا نشانہ دین، اسلام، اور مدارس ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری آزادی ہم سے چھینی جا رہی ہے، مسئلہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہیں بلکہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا ہے، قبضہ فلسطین پر ہوا ہے اور ہم فلسطین کو آزاد کرنا چاہتے ہیں، فلسطینی قرارداد پاکستان کا حصہ ہے۔