افواج کو کمزور کرنا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، جنرل عاصم منیر

کاکول۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ افواج پاکستان کی کمزوری ملک کی کمزوری کے برابر ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی منفی قوت نہ تو فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کو کمزور کرسکتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پاکستان کے 77ویں یوم آزادی پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ کا انعقاد کیا گیا جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

آرمی چیف کو سلامی کے چبوترے پر پہنچنے پر چاق و چوبند دستے نے سلامی دی۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی تقریر سنائی گئی۔

پریڈ میں لیزر شو اور روشنیوں کا شاندار مظاہرہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان کی تعمیر اور آزادی کی جدوجہد کے مناظر دکھائے گئے۔ کیڈٹس نے مارچ پاسٹ کیا اور بینڈ نے قومی نغموں کی دھنیں پیش کیں۔

بعد ازاں رات بارہ بجے بلوچ رجمنٹ نے پرچم کشائی کی اور تقریب میں موجود شرکا نے قومی ترانہ پڑھتے ہوئے احترام پیش کیا۔

اس موقع پر کیڈٹس، افسران کے اہل خانہ اور دیگر معززین نے شرکت کی اور کیڈٹس کی مارچ پاسٹ پر داد دی۔ نظم و نسق کا مظاہرہ کرنے والے جوانوں نے وطن عزیز کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

آرمی چیف نے اپنے خطاب کی ابتدا میں قوم کو جشن آزادی کی مبارکباد دی اور کہا کہ آج کا دن رب کا شکر ادا کرنے کا ہے جس نے ہمیں وطن عزیز اور آزادی کی نعمت عطا کی اور ہمیں حوصلہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا قومی شعور نظریہ پاکستان پر مبنی ہے جو دو قومی نظریے پر قائم ہے، اس نے برصغیر کے مسلمانوں کو الگ شناخت، ثقافت اور تہذیب قائم کرنے کا موقع فراہم کیا۔

پاکستان کا قیام محض جغرافیائی سرحدوں کا حصول نہیں تھا بلکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کی بنیاد پر معاشرہ تمام مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔

قائد اعظم کی عظیم قیادت اور برصغیر کے ہزاروں مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم تحریک پاکستان کے کارکنان اور شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں، اختلاف اور انتشار ملک کو اندر سے کمزور کرکے بیرونی جارحیت کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔

قوم کا پاک فوج پر غیر متزلزل اعتماد ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، یہ مضبوط رشتہ ہمارے مشکل حالات میں ہماری طاقت بن کر حوصلوں اور جذبوں کو بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، فوج کو کمزور کرنا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ مجھے پختہ یقین ہے کہ کوئی منفی قوت اس اعتماد کے رشتہ کو کمزور نہیں کر سکتی، افواج پاکستان نے ملک کے دفاع کی قسم کھا رکھی ہے جس کی آبیاری وہ اپنے خون سے کر رہی ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں اپنی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ عالمی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی رفتار اور نوعیت غیرمعمولی ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان اپنے موقف کی بدولت مسلم امہ اور دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے، پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے خطے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عزائم سرگرم ہیں، عوام، افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور لازوال قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی قربانیاں دینے کا عزم رکھتے ہیں۔

خیبر پختونخوا صوبے میں فتنہ الخواراج کی ریاست اور شریعت مخالف کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردی کا فتنہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ اسی فتنہ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’اگر تم شریعتِ اسلام کو نہیں مانتے، آئین پاکستان کو نہیں مانتے تو ہم بھی تمہیں پاکستانی نہیں مانتے‘‘۔

صوبہ بلوچستان بہادر اور حب الوطن لوگوں کا مسکن ہے، پاک فوج، حکومت پاکستان اور بلوچستان کے تعاون سے بلوچستان اور اس کی غیور عوام کی سالمیت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔

افغانستان ہمارا برادر ہمسایہ اسلامی ملک ہے، ہم افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں اور ان کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ فتنہ الخواراج کو اپنے دیرینہ، خیر خواہ اور برادر ہمسایہ ملک پر ترجیح نہ دیں۔

چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ پچھلے چند سالوں سے بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں ڈیجیٹل دہشت گردی کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا مقصد قوم میں انتشار اور مایوسی پھیلانا ہے جبکہ قرآن میں حکم ہے کہ کسی بھی خبر کی تحقیق کر لیں تاکہ اپنے عمل پر پچھتاوا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آزادی اظہارِ رائے یعنی Freedom of Speech کا آئین اجازت دیتا ہے، مگر آئین نے اس کی واضح حدود بھی مقرر کی ہیں۔ آزادی رائے پر آرمی چیف نے علامہ اقبال کے اشعار کا حوالہ دیا:

’’آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر و تدبُر کا سلیقہ ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ‘‘

آرمی چیف نے کہا کہ عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ عوام اور فوج ایک ہیں۔

جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ ہم چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور ترکیے کے شکر گزار ہیں جو ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کھڑے رہے ہیں۔

ہم اپنے دشمنوں کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ چاہے روایتی یا غیر روایتی جنگ ہو، Dynamic یا Proactive جنگی حکمتِ عملی ہو، ہمارا جواب تیز اور مؤثر ہوگا اور ہم یقیناً گہرا اور دور رس جواب دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی بغیر قیمت چکائے نہیں ملتی، اس کے لیے بہت سے بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانی دینی پڑتی ہے جس کے لیے ہم ہمیشہ تیار ہیں۔ آج آزادی کے جشن کے موقع پر ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔

ہم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور انہیں اپنی ہر قسم کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کا بھرپور یقین دلاتے ہیں۔

آرمی چیف نے کہا کہ آج کا دن ہمیں اسرائیل کی طرف سے غزہ کے بے بس لوگوں کے خلاف جاری خوفناک نسل کشی، نسلی قتلِ عام اور بلا تفریق مظالم کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی واضح خلاف ورزی یقیناً دنیا کے ضمیر اور رولز بیسڈ انٹرنیشنل آرڈر پر داغ ہے۔ حکومت پاکستان کا مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھانا اور انسانی بنیادوں پر امداد دینے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔

آرمی چیف نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے یہ ملک قائم کر کے جو امید کی شمع جلائی، ہم اسے کبھی بجھنے نہیں دیں گے۔

انہوں نے سورہ یوسف کی ستاسیوں (v7) آیت کا حوالہ دیتے ہوئے آیت اور اس کا ترجمہ پڑھا کہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ کی رحمت سے صرف کافر مایوس ہوتے ہیں۔‘‘

آخر میں کیڈٹس کو سراہتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ ملک کے 65 فیصد نوجوانوں کی طرح، آپ تمام کیڈٹس کے روشن چہرے اور آنکھوں کی چمک مجھے اس عظیم قوم کے درخشاں مستقبل کی نوید دیتی ہے۔

پاکستان اللہ کا انعام ہے، جو ان شاء اللہ تا ابد قائم رہے گا، اور اس کے خیر خواہ ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔ بہترین ٹرن آؤٹ اور وطن عزیز کو شاندار خراج تحسین پیش کرنے پر پاکستان ملٹری اکیڈمی اور اس کے جری کیڈٹس کو سراہتا ہوں۔