اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آڈیو لیک کیس میں مزید کاروائی سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کو آڈیو لیک کیس میں مزید کاروائی سے روک دیا گیا

سپریم کورٹ میں بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب آڈیو لیک کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے اور وضاحت دی کہ 29 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جاری کردہ حکم نامے میں اتھارٹیز کو فون ٹیپنگ سے روکا گیا تھا۔

ہائی کورٹ کے حکم نامے کی وجہ سے انٹیلی جنس ایجنسیز کو متعین دشمنوں کی شناخت کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور کسی دہشت گرد کو گرفتار کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کو بھی فون ٹیپنگ اور سی ڈی آر سے روک دیا گیا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا ہائی کورٹ نے یہ تعین کیا ہے کہ آڈیو ریکارڈنگ کس نے کی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا، تفتیش جاری ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں سچ تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا، سچ جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس پر اسٹے دے دیا۔

سپریم کورٹ میں آج تک آڈیو لیکس کیس کی دوبارہ سماعت نہیں ہوئی، پارلیمان نے سچ جاننے کی کوشش کی تو اسے بھی روک دیا گیا، نہ پارلیمان کو کام کرنے دیا جائے گا اور نہ ہی عدالت کو، تو سچ کیسے سامنے آئے گا؟

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ جن سے بات ہو رہی ہو وہ آڈیو لیک کر رہے ہوں، کیا اس پہلو پر غور کیا گیا ہے؟ آج کل ہر موبائل میں ریکارڈنگ کا نظام موجود ہوتا ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 جون کے حکم نامے کو معطل کر دیا۔ عدالت نے تاحکم ثانی اسلام آباد ہائی کورٹ کو مزید کاروائی سے بھی روک دیا۔

سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے آرٹیکل 199 کے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے دو فیصلوں میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ از خود نوٹس نہیں لے سکتی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ 31 مئی کو ہائی کورٹ کی سماعت میں جو پانچ سوالات طے کیے گئے، وہ درخواست گزاروں کے کیس سے متعلق نہیں تھے اور ہائی کورٹ تفتیش نہیں کر سکتی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ 29 مئی 2024 کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے کا جائزہ لیا گیا، اور چونکہ 29 مئی کے حکم نامے کو آئندہ عدالتی کارروائی میں توسیع نہیں دی گئی، اس لیے حکم نامہ معطل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔