آئینی ترامیم کیلئے بدمعاشی قبول نہیں،مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترمیم کا پہلا مسودہ مسترد کرتے ہیں، اور آج بھی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر گزشتہ تین ہفتوں سے مشاورت اور گفتگو جاری ہے، جبکہ ہمارے اراکین پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور انہیں خریدنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی ترمیم کے مسئلے پر تین ہفتے سے مباحثہ اور مشاورت ہو رہی ہے، اور ہم نے اس بارے میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کا پہلا ڈرافٹ مسترد کیا اور آج بھی اسے رد کرتے ہیں۔ اگر افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنی ہے تو ہم نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے ساتھ اس معاملے پر دو دن پہلے تفصیلی گفتگو کی، اور پھر گزشتہ روز نواز شریف سے بھی چار گھنٹوں تک بات چیت ہوئی۔ جن نکات پر اتفاق ہوا ان کا اعلان کر چکے ہیں، جبکہ باقی متنازع نکات پر گفت و شنید جاری ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ تحریک انصاف ایک بڑی اپوزیشن جماعت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی ترمیم کے معاملے میں پی ٹی آئی کا رویہ مثبت ہے اور وہ ہر مثبت پیشرفت کا خیرمقدم کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں سیاسی جماعتوں، بار کونسلز، اور پاکستان بار کونسل کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ حکومت ہمارے مفاہمت کے رویے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی، ہمارے اراکین کو ہراساں اور اغوا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی کے ایک رکن کو اغوا کیا گیا ہے جو اب بھی ان کے گھر میں موجود ہے، جبکہ دوسرے کو دھمکی دی گئی ہے اور تیسرے کو بھاری رقم کی پیشکش کی گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اختر مینگل کی جماعت کے رکن کے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ اگر حکومت نے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا بند نہ کیے تو ہم مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اگر حکومت دلیل کے ساتھ بات کرے گی تو ہم بھی دلیل سے جواب دیں گے، لیکن حکومت کی بدمعاشی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صبح تک اراکین کو اغوا، ہراساں اور خریدنے کا عمل جاری رہا تو حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سخت موقف اختیار کریں گے۔ ہمارے نیک نیتی اور سنجیدگی کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنے اراکین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں تاکہ وہ پارٹی پالیسی پر عمل کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اراکین اسمبلی کی گمشدگیوں اور فیملیز کو ہراساں کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھ گیا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں ان کا جواب دیں گے، اور اگر متنازع ترمیم کو زبردستی منظور کروایا گیا تو ہم کہیں گے کہ اس نامزد پارلیمنٹ کو اتنی بڑی آئین و قانون سازی کی ضرورت نہیں، اور پھر ہم کسی بھی پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم مولانا صاحب کے ساتھ بات چیت کے لیے بڑے دل سے حاضر ہوئے اور پہلے دن ہی طے کیا تھا کہ ہم مل کر آگے بڑھیں گے۔ خصوصی کمیٹی میں ہم نے ابتد سے ہی یہ معاملہ اٹھایا کہ ہمارے اراکین اسمبلی کو اغوا اور فیملی کو ہراساں کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود ہم ہر اجلاس میں شرکت کرتے رہے تاکہ ڈرافٹ ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔