لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کے لئے تھا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس اور پی ٹی آئی وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

اسلام آباد: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جس میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے۔

حامد خان کے دلائل کے دوران چیف جسٹس کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوگئی۔ حامد خان نے کہا کہ 13 رکنی بینچ اس کیس کا فیصلہ دے چکا ہے، اس لیے تین رکنی بینچ یہ کیس نہیں سن سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ نقطہ پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟ آپ کیس کو جاری رکھیں۔ حامد خان نے کہا کہ عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھ لے۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم وہ فیصلہ کیوں دیکھیں؟ یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ میں اب وہ بات کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں ان لوگوں کو پسند کرتا ہوں جو ٹی وی پر بات کرنے کے بجائے منہ پر بات کرتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف متعصب ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا۔ اس پر حامد خان نے کہا کہ میں اس کیس میں دلائل نہیں دینا چاہتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا ہم یہاں گپ شپ کے لیے بیٹھے ہیں؟ حامد خان نے جواب دیا کہ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میں عدالت کے سامنے کوئی بات کرنے سے گریز کر رہا ہوں۔