چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ اگر ہتک عزت کو فوجداری قانون میں بھی رکھیں تو اس کا اطلاق پبلک آفس ہولڈرز پر نہیں ہوتا۔
ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ تین سال میں 2 لاکھ 39 ہزار شکایات درج کی گئیں، سیکشن 20 کے تحت 94 ہزار شکایات ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکشن 20 کے تحت کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتاری نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ محسن بیگ کا کیس عدالت کے سامنے ہے، ایف آئی آر پڑھیں، جس پر ڈائریکٹر ایف آئی نے کہا کہ سیکشن 20 کے ساتھ دیگر سیکشنز کا اضافہ ہو تو گرفتاری ہوتی ہے، ڈائریکٹر ایف آئی آے نے محسن بیگ کے خلاف درج ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ محسن بیگ نے جو کچھ کہا یہ بتائیں کہ اس پر کون سی دفعہ لگتی ہے؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ملزم نے یوٹیوب پر بھی پروگرام کیے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر تو اس سے متعلق نہیں ہے، ہو سکتا ہےکتاب میں وزیر کے بارے میں اچھی باتیں لکھی گئی ہوں، ایف آئی آے نے فرض کرلیا کہ وہاں کچھ غلط ہی لکھا گیا ہے اور انکوائری کے بغیر اسی روز بندے کو گرفتار کر لیا، آپ نے یہ سارا تجزیہ کیا کمپلینٹ فائل ہونے سے پہلے ہی کر لیا تھا؟
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کا ذہن خراب ہے تو وہ اس پیج کی غلط تشریح کرے گا، آپ صرف 21 ڈی پڑھ لیں کہ کیا اس سیکشن کا اطلاق اس کیس میں ہوتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہو گا اس لیے اس ایشو پر میری رائے نہ مانگیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ وہ معاملہ تو ٹرائل کورٹ دیکھ سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی مقدمہ اخراج کے لیے اس عدالت کے سامنے ہے، آپ اس ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں کہ تنقید ہی نہ ہو۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس بڑا ایشو ہے جس پر معاونت کے لیے آج پیش ہوا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایک دفعہ تمام کیسز کا جائزہ تو لیں کہ ایف آئی اے کس طرح اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس ایشو پر وزیراعظم سے بھی ملا ہوں، جب یہ آرڈیننس آیا تو پتہ چلا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، میں کسی پولیٹیکل پارٹی کی نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا میرے خیال سے یہ ترمیم برقرار نہیں رہ سکتی، ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، وزیراعظم کو بتایا کہ ترمیمی آرڈیننس سے کچھ چیزیں تو واپس ہوں گی، ہم پی ایف یو جے، سی پی این ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا حکم ہے، ترمیمی آرڈیننس کے تحت کوئی کیس پراسیس نہیں ہو گا، میری کی گئی باتوں پر عمل نہ ہوا تو میں اس کیس کا دفاع نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہتک عزت کو فوجداری قانون میں بھی رکھیں تو اس کا اطلاق پبلک آفس ہولڈرز پر نہیں ہوتا۔
خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ یورپ کی بات کریں تو وہاں سزائے موت ختم ہو گئی، پھر کیا ہم بھی ختم کر دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کیا کہ کوئی سوشل میڈیا سے کیوں پریشان ہو؟ سیاسی جماعتیں طے کر لیں کہ ان کا کوئی چاہنے والا سوشل میڈیا پر بدتمیزی نہیں کرے گا تو یہ سب ختم ہو جائے، مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر میرے بارے میں کیا کہا جاتا ہے؟ میرے لیے عدالت میں کیے گئے فیصلے زیادہ اہم ہیں۔