پیکا آرڈیننس کیخلاف درخواستوں کی سماعت،آرڈی نینس کے آرٹیکل 44 اے کے تحت عدلیہ اور جج کی آزادی کو متاثر کیا گیا،ایڈوکیٹ منیر اے ملک کے دلائل

اسلام آباد(سی این پی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں زیر سماعت پیکا آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پی بی اے سمیت دیگر کی درخواستوں پر دلائل مکمل کرلیے گئے۔گذشتہ روز سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم۔ودود، ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ،پی بی اے وکیل منیراے ملک، پی ایف یو جے وکیل عادل عزیز قاضی اور دیگر عدالت پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل مصروفیت کے باعث پیش نہ ہوئے،اس موقع پر سینئر اینکر حامد میر،پی ایف یو جے کے فنانس سیکرٹری جمیل مرزا،صدر آرآئہ یوجے شکیل احمد، ممبران ایف ای سی رضوان قاضی، عابد چوہدری اور دیگر بھی موجودتھے، چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل بعد میں دلائل کیلئے پیش ہوں گے،منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے آرٹیکل 44 اے کے تحت عدلیہ اور جج کی آزادی کو متاثر کیا گیا،آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈی نینس صرف ہنگامی حالات میں جاری ہو سکتا ہے،آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈی نینس جاری کرنے کے اختیار پر بھی معاونت کروں گا،آرڈیننس کا اجرا ایگزیکٹو پاور ہے جو عدالتی نظرثانی سے مشروط ہے،پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے آرٹیکل 44 اے کے تحت عدلیہ اور جج کی آزادی کو متاثر کیا گیا، آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈی نینس صرف ہنگامی حالات میں جاری ہو سکتا ہے،آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈی نینس جاری کرنے کے اختیار پر بھی معاونت کروں گا،آرڈیننس کا اجرا ایگزیکٹو پاور ہے جو عدالتی نظرثانی سے مشروط ہے، صدر اس بات پر مطمئن ہوں کہ انتہائی ایمرجنسی کی صورتحال ہے تو تب آرڈی نینس جاری کر سکتے ہیں، صدر بتا سکتے ہیں کہ کیا ایمرجنسی اور حالات تھے کہ آرڈی نینس جاری کرنا پڑا،صدر مملکت نے چودہ فروری کو 12:32 پر ٹوئٹ کیا کہ 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا،اٹھارہ فروری کو صدر پاکستان نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس جاری کر دیا،پی بی اے کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے ایڈووکیٹ عادل عزیز قاضی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اٹھارہ فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس شیڈول میں تھا جسے ملتوی کیا گیا،صرف اس نکتے سے ہی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے کہ آرڈی نینس کے اجرا کے لیے ایسا کیا گیا،اس طرح کی قانون سازی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں،آرڈیننس ہمیشہ ایمرجنسی یا غیر یقینی صورتحال میں پاس کیا جاتا ہے،پیکاترمیمی آرڈیننس اس دوران آیا جب پارلیمنٹ اجلاس ختم ہوا،صدر یا گورنرز کو غیر یقینی صورتحال کے بغیر کوئی آرڈیننس جاری نہیں کرسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ایم سی آرڈیننس 19 کو کالعدم قرار دیا تھا،جو رولز اور کنڈیشنز دی گئی ہیں اس میں کچھ دن ضرور لگتے ہیں،17 فروری کو اجلاس ختم ہوا اور 18 کو آرڈیننس لایا گیا،اس آرڈیننس کے ذریعے پیمرا کا اختیار ایف آئی اے کو دیا گیا،اس قانون کو صرف میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے لایا گیا،گذشتہ کئی دنوں سے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو الفاظ استعمال کیا عوام نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، جنہوں نے قانون لایا وہ ہی اس کے خلاف ورزی کرتے ہیں،صرف اس لیے قانون لایا گیا کہ سوشل میڈیا پر جو تنقید یا اعتراض ہوتا ہے اسے روکا جا سکے،سیاستدانوں نے خود بھی گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ایک دوسرے کے بارے میں بہت غلط زبان استعمال کی،پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی کے دلائل مکمل ہونے پروکیل ساجدتنولی اور عثمان وڑائچ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرائے ہیں،اس قانون سے اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی، سیکشن 20 کے اوپر اس قسم کے کوئی سیف گارڈ مہیا نہیں کئے گئے،لوگوں کی رائے پر قدغن لگانے کے لئے یہ قانون لایا گیا،ایف آئی اے نے کسی شکایت میں نہیں دیکھا کہ شکایت قانون کے مطابق ہے بھی یا نہیں ، پیکا کے زریعے ایف آئی اے نے اختیارات کا غلط استعمال کیا،جب تک اظہار رائے کی آزادی نہ ہو معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا،اس آرڈیننس کے ذریعے کورٹ میں زیر سماعت کیسسز پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ،کوئی بھی عام شخص کسی بھی پبلک آفس ہولڈر کے خلاف درخواست دے سکتا ہے،یہ آرڈیننس صرف پبلک آفس ہولڈر کی تحفظ کے لیے بنایا گیا،پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، کالعدم قرار دیا جائے،ساجد تنولی ایڈوکیٹ کے دلائل بھی مکمل ہونے پرلاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر مقصود بٹر کی درخواست پر ان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے کے پاس اختیار نہیں کہ وہ دو پرائیویٹ پارٹیز کے درمیان مسئلے کو دیکھے،ایف آئی اے صرف وہ کیسز دیکھ سکتا ہے جن کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق بنتا ہو،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ چاہتے ہیں کہ ایس ایچ او کو یہ اختیار دے دیں؟، کسی تفتیشی ایجنسی کو تو اختیار دینا تھا، اس معاملے میں ایف آئی اے کو اختیار دیا گیا، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ پیکا ترمیمی آرڈی نینس سے متعلق نکتے پر ہی دلائل دیں،وکیل نے کہاکہ پیکا ترمیمی آرڈیننس صرف سیاسی مقاصد کے لیے لایا گیا،73 سالوں سے ہم ایف آئی آر کے غلط استعمال کو دیکھ رہے ہیں،بغیر وارنٹ کے گرفتاری جاری کرنے کے قانون کی ضرورت نہیں تھی،ہمارے سامنے بہت سارے کیسسز موجود ہیں جس میں گرفتاری پہلے مقدمہ بعد میں ہوا،16 ممالک نے فوجداری مقدمات ختم کردیے ہیں،عدالت نے کہاکہ کسی پبلک آفس ہولڈر کو ڈیفامیشن کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے،وکیل نے کہاکہ آذادی اظہار رائے پر قدغن سے متعلق میں تحریری کمنٹس جمع کراوں گا،فرحت اللہ بابر کی جانب سے اسامہ خاور اور بیرسٹر جنت علی کلیار ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کے لئے ہے مگر اس کے اندر کچھ گراؤنڈ پر اظہار رائے پر قدغن لگایا،ہمارے اور امریکی آئین میں فرق ہے مگر انڈین آئین کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں،آرٹیکل 19 میں نیشنل انٹرسٹ، توہین اسلام، خودمختاری، توہین عدالت یا کسی کو جرم پر اکسانے جیسے معاملات پر قدغن ہے،1975 میں چوتھی آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 19 میں کریمنل ڈیفامیشن کی کوئی جگہ نہیں،فرحت اللہ بابر کے وکیل اسامہ خاور کا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سیکشن 20 اور ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے،آرڈیننس صرف ایگزیکٹو ایکشن ہے،ایف آئی اے کے پاس بیس ہزار سے زائد کیسسز زیر سماعت ہے ان کو دیکھنے کے لئے طریقہ کار کیا ہوگا،پیکا اور پاکستان پینل کوڈ میں غلط ویڈیوز شئیر کرنے پر سزا کے لئے قوانین موجود ہیں، درخواست گزاران کے وکلاء کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر سماعت پیر21مارچ تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔