اسلام آباد۔ سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت آج جمعہ کوبھی جاری رہے گی سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کئی اہم ترین آئینی وقانونی سوالات اٹھادیے ہیں ،
جسٹس امین الدین نے کہا بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہو سکتا ہے صرف عملداری معطل ہوتی ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیاگیا توبنیادی حقوق معطل نہیں تھے، نہ ہی ایمرجنسی نافذ تھی۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا ہے کہ 9مئی واقعات میں 103ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا اور باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ تفریق کیسے کی گئی؟ کون سا کیس ملٹری کورٹس میں جائے گا،کون ساکیس انسداددہشتگردی عدالتوں میں جائے گا؟ ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینے کا انسداد دہشتگردی عدالتوں کا تفصیلی فیصلہ کدھر ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے؟ جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے جی ایچ کیو پر پہلے بھی ایک حملہ ہوا جس میں شہادتیں ہوئیں، کراچی میں ایک دہشتگردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے تو ان کے جہاز کو ہائی جیک کرنےکی کوشش کی گئی، ان واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، شہادتیں ہوئیں، یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے؟ جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا 9مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے؟ جوٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہاہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پر اسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی