راولپنڈی۔اسلام آباد کی خصوصی احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پاو¿نڈ کے مالیاتی سکینڈل پر مبنی القادر ٹرسٹ ریفرنس میں تحریک انصاف کے سابق چیئرمین کو کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کی اہلیہ و شریک ملزمہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی ہے عدم ادائیگی جرمانہ پر دونوں ملزمان کو بالترتیب 6 اور 3 ماہ مزید قید بھگتنا ہوگی عدالت نے القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے نیب آرڈیننس کے تحت ملزمان کو 10 سال کے لئے کسی بھی سرکاری و عوامی عہدے کے لئے بھی نااہل قرار دینے کے ساتھ کسی بھی قومی مالیاتی ادارے اور بنکوں سے لین دین پر بھی پابندی عائد کردی ہے عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد جیل حکام نے بشریٰ بی بی کو حراست میں لے لیا جمعہ کے روز فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سابق چیئرمین اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں موجود تھے جبکہ پراسیکیوٹر جنرل کی سربراہی میں نیب کی ٹیم کے علاوہ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور سابق چیئرمین کی ہمشیرہ علیمہ خان، سلیمان اکرم اور شعیب شاہین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے یاد رہے کہ نیب نے گزشتہ سال 13 نومبر کو اس ریفرنس میں سابق چیئرمین کو باضابطہ طور پر گرفتار کیا تھا جبکہ نیب نے اڈیالہ جیل میں 17 روزہ تفتیش کے بعد یکم دسمبر 2023 کو یہ ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا تھا ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی سابق چیئرمین اور بشریٰ بی بی سے اڈیالہ جیل میں تفتیش کی تھی جبکہ عدالت نے 27 فروری 2023 کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی تھی سابق چیئرمین اور بشریٰ بی بی پر الزام تھا کہ انہوں نے 190 ملین پاو¿نڈ پاکستان منتقل ہونے سے قبل ایسسٹ (Asset) ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کے ذریعے پراپرٹی ٹائیکون سے خفیہ معاہدہ کیا اور بطور وزیر اعظم اپنے عہدے و اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ سے اس معاہدے کو وفاقی کابینہ میں منظور کروایا شہزاد اکبر نے 6 دسمبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی کی رازداری ڈیڈ پر دستخط کئے بشریٰ بی بی نے سابق چیئرمین کی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا اور 24 مارچ 2021 کو بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی کی دستاویزات پر دستخط کرکے سابق چیئرمین کی مدد کی جبکہ سابق چیئرمین نے غیر قانونی طریقے سے بددیانتی کرکے 190 ملین پاو¿نڈ کی سہولت کاری کی خفیہ معاہدے کے ذریعے 190 ملین پاو¿نڈ کو حکومت پاکستان کا اثاثہ قرار دیکر سپریم کورٹ کا اکاو¿نٹ استعمال کیا گیا اس طرح بشریٰ بی بی اور سابق چیئرمین نے اپنی کار خاص فرحت شہزادی کے ذریعے موضع مہرہ نور اسلام آباد میں 240 کنال اراضی حاصل کی اس طرح سابق چیئرمین اور ان کی اہلیہ و شریک ملزمہ بشریٰ بی بی اختیارات کے غلط استعمال اور بددیانتی میں ملوث پائے گئے ہیں اور سابق چیئرمین نے وزارت عظمیٰ کے دوران غیر قانونی مالی فوائد حاصل کئے اور زلفی بخاری کے ذریعے 458 کنال اراضی القادر یونیورسٹی کیلئے حاصل کی جبکہ اپریل 2019 میں القادر یونیورسٹی کا کوئی وجود نہیں تھا اس طرح لگ بھگ اس ریفرنس کا جیل ٹرائل ایک سال میں مکمل ہوا ریفرنس میں نیب نے پہلے 59 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی تاہم بعد ازاں نیب نے 59 گواہان میں سے 24 گواہان کو ترک کر دیا تھا اس طرح ریفرنس میں سابق چیئرمین کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق وزیر اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل افسر سمیت کل 35 گواہان کے بیانات قلمبند کئے گئے جن پر ملزمان کے وکلا نے جرح مکمل کی جبکہ ریفرنس کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم پر ملزمان کے وکلا نے 38 سماعتوں کے بعد جرح مکمل کی سابق چیئرمین اور بشریٰ بی بی پر مشتمل دونوں ملزمان کو 342 کے بیانات مکمل کرنے کے لئے 15 مواقع فراہم کئے گئے 342 کے بیان کے لئے دونوں ملزمان کو 77 /77 سوالات پر مشتمل سوالنامے دیئے گئی دوران سماعت مسلسل عدم حاضری اور دانستہ روپوشی پر عدالت نے زلفی بخاری، فرحت شہزادی، مرزا شہزاد اکبر اور ضیائ المصطفی نسیم سمیت 6 ملزمان کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیدادیں اور بنک اکاونٹ منجمد کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جیل ٹرائل کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیئرمین کی ضمانت منظور کی تھی جبکہ ٹرائل کورٹ نے بشریٰ بی بی کی ضمانت قبل از گرفتاری نے منظور کی تھی دوران ٹرائل سابق چیئرمین نے 16 عدالتی گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی تاہم عدالت نے عدالتی گواہان کو بلانے کی درخواست مسترد کی تھی جبکہ بعد ازاں سابق چیئرمین گواہ پیش کرنے کے بیان سے پیچھے ہٹ گئے ملزمان نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265-K کے تحت بریت کی درخواست پر ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کا اختیار دیا جبکہ عدالت نے بریت درخواست کا فیصلہ بھی ریفرنس کے فیصلے کیساتھ ہی سنانے کا فیصلہ دیا ریفرنس کے ٹرائل کے دوران 4 جج تبدیل ہوئے ابتدا میں ریفرنس کی سماعت جج محمد بشیر نے کی جس کے بعد جج ناصر جاوید رانا اور پھر محمد علی وڑائچ جج مقرر ہوئے لیکن دوبارہ اس کیس کی سماعت جج ناصر جاوید رانا نے کی دوران ٹرائل ریفرنس میں نیب کی پیروی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی، امجد پرویز، سہیل عارف، عرفان بھولا، چوہدری نذر سمیت 6 رکنی پراسیکیوشن ٹیم نے جبکہ ملزمان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر، عثمان ریاض گل اور ظہیر عباس چوہدری پیش ہوتے رہے فیصلہ سنانے کی تاریخ اس قبل تین مرتبہ موخر ہوئی 18 دسمبر کو فیصلہ محفوظ ہوا پہلی تاریخ 23 دسمبر تھی پھر 6 جنوری اور بعد ازاں 13 جنوری کو فیصلہ سنانے کی تاریخ دی گئی تاہم ملزمان کی عدم حاضری پر عدالت یہ فیصلہ 13 جنوری کو بھی نہ سنا پائی تھی جو بالآخر جمعہ کے روز سنا دیا گیا اس موقع پر سکیورٹی کے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اس موقع پر ایس پی صدر کی سربراہی میں ایس ڈی پی او صدر کو سکیورٹی انچارج اور ایس ایچ او چونترہ کو سب انچارج مقرر کیا گیا تھا جبکہ جیل کے اطراف 6 تھانوں کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔