9 مئی ملزمان میں سے ایک کے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش، آئینی بینچ نے فائلیں واپس کردیں

اسلام آباد ۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے آج ایک بار پھر فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کا آغاز ہوتے ہی وزارت دفاع کے وکیل، خواجہ حارث، نے دلائل پیش کیے اور آئین کی شق 19 کا حوالہ دیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ کیا تفتیش چارج سے پہلے ہوتی ہے؟ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ پہلے تفتیش ہوتی ہے، اس کے بعد چارج فریم کیا جاتا ہے۔

خواجہ حارث نے نشاندہی کی کہ قانون میں ٹرائل اور شفاف ٹرائل (فئیر ٹرائل) کے مابین فرق واضح کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چارج فریم ہونے کے بعد ہی کسی کو شاملِ تفتیش کیا جاتا ہے۔

سماعت کے دوران مختلف ججز نے سوالات کیے، جن میں فوجی عدالتوں میں دی جانے والی سزاؤں، اپیل کے مواقع، اور ملزمان کے قانونی حقوق سے متعلق نکات شامل تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر کوئی ملزم اعتراف جرم نہ کرے تو کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے؟ جس پر وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ ملزم کو آرمی ایکٹ کے تحت مکمل قانونی تحفظ دیا جاتا ہے اور ٹرائل میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔

مزید برآں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر کوئی ملزم وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو کیا اسے سرکاری وکیل فراہم کیا جاتا ہے؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایسے ملزمان کے لیے سرکاری خرچ پر وکیل مہیا کیا جاتا ہے۔

سماعت کے دوران سوشل میڈیا پر عدلیہ کے کردار کے حوالے سے تبصرے بھی زیربحث آئے، جسٹس مسرت ہلالی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ججز کے سوالات کو سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔

لطیف کھوسہ نے فوجی عدالتوں کے ٹرائل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ عدالتیں شفاف ہیں تو پھر تمام کیسز انہی کے سپرد کر دیے جائیں۔ تاہم، خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوتی ہے، اور ملزمان کو شفاف ٹرائل کا مکمل موقع دیا جاتا ہے۔

سماعت کے دوران 9 مئی کے واقعات میں ملوث ایک ملزم کے فوجی ٹرائل کا ریکارڈ پیش کیا گیا، جس پر آئینی بینچ کے ججز نے جائزہ لیا۔ البتہ، چھ ججز نے فائلیں واپس کر دیں، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی نے مزید معائنے کے لیے ریکارڈ اپنے پاس رکھا۔

سماعت کے اختتام پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام کی گنجائش موجود ہے؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ آئین کے تحت عدالتوں کے قیام کا ذکر ضرور ہے، لیکن ماضی میں فوجی عدالتوں سے متعلق دیے گئے تمام عدالتی فیصلوں پر نظرثانی کی ضرورت پڑے گی۔

بینچ نے مزید دلائل کے لیے سماعت کل تک ملتوی کر دی، جس میں خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔